Three days to see:دیکھنے کے لئے تین دن

17/09/2023

ہیلن کیلر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں دنیا انھیں ایسی باہمّت اور باصلاحیت خاتون کے طور پر یاد کرتی ہے جنھوں نے بصارت اور سماعت سے محرومی کے باوجود بھرپور زندگی گزاری اور دنیا کے لیے مثال بنیں۔ ہیلن کیلر ایک ماہرِ تعلیم اور مصنّفہ کی حیثیت سے مشہور ہیں۔
ہیلن کیلر 27 جون 1880ء کو امریکا میں پیدا ہوئیں۔ وہ پیدائشی طور پر صحّت مند اور نارمل تھیں، لیکن کم سنی میں لاحق ہونے والے ایک مرض کے سبب ان کی بینائی اور قوّتِ سماعت جاتی رہی۔ معالج ان کا مرض نہ جان سکے اور جب والدین ان کے علاج کی طرف سے مایوس ہوگئے تو ایک ایسی خاتون کی خدمات حاصل کرلیں جس نے انھیں معذوری کے ساتھ بھرپور زندگی گزارنا سکھایا۔ اس مہربان اور ماہر استاد عینی سیلوان کی بدولت ہیلن کیلر نے معمولاتِ زندگی انجام دینا سیکھے۔ بریل کی مدد سے لکھنا پڑھنا شروع کیا۔

دس سال کی عمر میں ہیلن کیلر ٹائپ رائٹر استعمال کرنے لگی تھیں۔ اگلے پانچ سال بعد وہ کسی قدر بولنے کے قابل ہوگئیں اور پھر انھوں نے معذوروں‌ کے ایک اسکول میں‌ داخلہ لے لیا، کالج تک پہنچیں اور گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔
ہیلن کے ایک انٹرویو سے جس میں اس کی خواہشات اور جذبات کا اندازہ صرف تین دن کے لیے آنکھوں کی بینائی کی طلب سے لگایا جا سکتا ہے۔ ہیلن کہتی ہیں۔۔۔۔
“میں نے اکثر سوچا کہ اگر انسان سے کچھ لمحوں یا کچھ دنوں کے لیے سماعت اور بصارت لے لی جائے تو یہ اس کے لیے رحمت کا باعث بنے گی۔ اندھیرا اسے بصارت کی قدر کرنا سکھائے گا اور خاموشی آواز کی خوشیوں کا سبق دے گی۔ اکثر میں نے اپنے بصارت والے دوستوں کو آزمایا کہ وہ کیا دیکھتے ہیں۔ ایک دفعہ میں نے اپنے ایک سیر کر کے آنے والے دوست سے پوچھا کہ اس نے کیا دیکھا؟ اس نے جواب دیا کچھ خاص نہیں۔ میں نے خود سے سوال کیا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک گھنٹہ جنگل میں سیر کے باوجود بھی کچھ غور کرنے کے قابل نہیں تھا۔ میں جو کچھ بھی نہیں دیکھ سکتی سیکڑوں چیزیں صرف چھو کر ہی محسوس کر لیتی ہوں۔ اگر میں صرف چھونے سے اتنا لطف اندوز ہو سکتی ہوں تو ان سب کو دیکھنا کتنا پرکیف ہو گا؟
میں نے تصور کیا اگر تین دن کے لیے ہی مجھے آنکھیں عطا کر دی جائیں تو پہلے دن میں ان لوگوں کو دیکھنا پسند کروں گی جن کی محبت اور رحمدلی کی وجہ سے میری زندگی اتنی خوبصورت ہوئی، میں وہ کتاب پڑھنا چاہوں گی جو میرے لیے پڑھی گئی ہو، دوپہر کے بعد میں جنگل کی سیر کرنا چاہوں گی اور اپنی آنکھوں کو کائنات کے حسن سے مسحور کرنا چاہوں گی، میں رنگدار غروب ہوتے سورج کی عظمت کو سلام کرنا چاہوں گی۔ اس رات میں سو نہ سکوں گی۔ اپنے دوسرے دن میں انسانی ترقی کا مقابلہ دیکھنا چاہوں گی، میں انسانی روح کی کھوج اسکے فن سے لگانا چاہوں گی۔ وہ چیزیں جنہیں میں چھو کر جانتی تھی اب میں دیکھ سکوں گی اور اس دن کی شام میں کسی تھیٹر یا سینما میں گزارنا پسند کروں گی۔ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں اگر آپ بینائی کے بغیر چند دن بھی گزار چکے ہوں تو آپ اپنی آنکھوں کو ایسے استعمال کریں گے جیسے کبھی نہیں کیا ہو گا۔ آپ کی آنکھیں ہر اس چیز کو دیکھنا چاہیں گی جو ان کی دسترس میں آنا ممکن ہو گی، تب ہی آپ کو صحیح معنوں میں آنکھوں کی قدر ہو گی اور اس عظیم نعمت کو شناخت کر سکیں گے۔ تیسرے دن کو میں روزانہ کی دنیا جیسا گزاروں گی اور پھر آدھی رات کے بعد ایک مستقل اندھیرا پھر سے چھا جائے گا اور پھر یہی تاریکی مجھے احساس دلائے گی کہ میں نے کتنی انگنت چیزیں چھوڑی ہیں۔ میں جو نابینا ہوں آنکھوں والوں سے کہنا چاہوں گی اپنی آنکھوں کو ایسے استعمال کریں جیسے آپ کل اس نعمت سے محروم ہونے والے ہیں۔ پرندوں کے گیت اور آوازوں کو سنیں، کسی پیانو کی آواز وہ بھی اتنی توجہ سے جیسے آپ کل بہرے ہونے والے ہیں۔ ہر چیز کو چھو کر محسوس کریں جیسے آج ہی کے لیے آپ کو نوازا گیا ہے۔ پھولوں کی خوشبو کو الگ الگ محسوس کریں جیسے آج کے بعد آپ محسوس کرنے اور چکھنے سے محروم ہونے والے ہیں۔ ہر حس کو بھرپور استعمال کریں اور انکی خوبصورتی اور عظمت کے لیے شکر گزار بن جائیں، کیونکہ انہی کی مدد سے آپ وسیع کائنات کو دیکھ پا رہے ہیں، لیکن میرے نزدیک ان سب میں سے خوبصورت احساس دیکھنے کا احساس ہے۔

بلند حوصلوں کی مالک ہیلن نےہر اندھیرے، بےبسی اورمشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس کا روشن چہرہ فقط دنیا کو خوشی کے آنسو ہی دکھاتا رہا۔ ہیلن کیلر کی کہانی ہم سے یہ تقاضہ کرتی ہے کہ ہر نعمت کے لیے ہم اپنے رب کے ہمیشہ شکرگزار رہیں۔ ہیلن کیلر نے 88 سال کی طویل عمر پائی اور 1968 میں گھر میں وفات پائی.

ہیلن کیلر توانا فکر اور زرخیز ذہن رکھتی تھیں۔ انھوں نے گریجویشن کے ساتھ معذور افراد کو جینے کا حوصلہ دینے اور ان کی ہر طرح سے مدد کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ اب وہ امریکا میں معذوری کو شکست دینے والی عورت کے طور پر پہچانی جاتی تھیں اور مختلف اداروں اور تقریبات میں لیکچر دینے لگی تھیں۔ انھوں نے بینائی، سماعت اور گویائی سے محروم لوگوں‌ کے حقوق کے لیے کام کیا اور ان سے متعلق بے بنیاد باتوں اور غلط تصوّرات کو دور کرنے کی کوشش کی۔

ہیلن کیلر نے 14 کتابیں‌ تصنیف کیں اور ان کے کئی مضامین شائع ہوئے۔ ہیلن کیلر کی تصانیف میں‌ ورلڈ آئی لِو اِن، آؤٹ آف دی ڈارک کے علاوہ “ہیلن کیلرز جرنل” شامل ہیں۔ امریکا میں نابینا افراد کے لیے قائم کردہ تنظیم کے پلیٹ فارم سے جڑنے کے بعد انھیں دنیا کے متعدد ممالک میں لیکچرز دینے کا موقع ملا۔ ان کی خدمات کے صلے میں انھیں‌ متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ ہیلن کیلر عزم و ہمّت اور حوصلے کی علامت کے طور پر آج بھی دلوں میں زندہ ہیں۔