Social
"نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے متعدد نکاحوں کی حکمتیں
3/01/2025
آج کل کے اس فتنہ و فتور اور دین سے گمراہی کے دور میں سوائے نفسانی خواہشات کے حصول کے لیے انسان ہر جائز و ناجائز کام صرف اور صرف اپنی غرض اور تسکین کے لیے کرتا ہے. ہم کہاں اور دین نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات و حکمتیں… ہماری سوچ و ادراک اتنی پستہ ہیں کہ ہم ان حکمتوں کی گہرائیوں سے ناواقف اور بے بہرہ ہیں.
آپ سب کی معلومات کے لیے کچھ وضاحت پیش خدمت ہے، ضرور پڑھیں اور استفادہ حاصل کریں.
تفصیلات کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی متعدد شادیوں کے حوالے سے تاریخی معلومات کا مختصراً احاطہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی شادیوں کے اصل اسباب اور مقاصد کیا تھے؟جس طرح حضور اکرم کے باقی ہر عمل کے پیچھے بھی کوئی نا کوئی حکمت ہوتی تھی اسی طرح آپ کی زندگی کا یہ پہلو بھی حکمتوں سے آزاد نہ تھا، اسلامی انقلاب کی وسعت تک پہنچنے کیلئے تعلقات کی وسعت اور مختلف خاندانوں اور بااثر قبائل کا تعاون ایک بنیادی ضرورت تھی ، اس غرض سے حضور اکرم نے متعدد شادیاں کیں، یہ سب نکاح مختلف قبائل کی ان خواتین سے تھے جن میں سے اکثر کا سبب تالیف ِقلب یا سہارا دینا تھا یا اس خاندان سے تعلق و رشتہ کی مزید گہرائی مقصود تھی یا ان رشتوں سے اسلام کو تقویت اور اللہ کی خوشنودی مقصود تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے متعدد نکاح اس وقت کیے جب آپ بڑھاپے کی عمر کو پہنچ چکے تھے اور اس وقت آپ کی عمر 50 سال سے بھی تجاوز کر چکی تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کےسوا آپ نے جن خواتین سے بھی نکاح کیے وہ تمام کی تمام بیوہ اور ضعیف العمر تھیں،صرف ایک عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں جو کنواری اور نوجوان تھیں۔
جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت خدیجہؓ سے نکاح فرمایا تو آپ کی عمر محض 25 سال تھی اور حضرت خدیجہؓ عمر میں آپ سے کافی بڑی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کی زندگی میں کسی دوسری خاتون سے نکاح نہیں کیا تھا ۔جنگ بدر اور پھر جنگ اُحد میں بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے ، نصف سے زیادہ گھرانے بے آسرا ہوگئے ، بیوگان اور یتیمو ں کا کوئی سہارا نہ رہا تھا۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ کو بیوگان سے شادی کرنے کو کہا، لوگوں کو ترغیب دینے کے لیے آپ نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہما، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہما سے مختلف اوقات میں نکاح کیے۔ آپ کی دیکھا دیکھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے بیوگان سے شادیاں کیں جس کی وجہ سے بے آسرا گھرانے آباد ہوگئے۔ حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہا کا خاوند فوت ہو چکا تھا اور یہ مشرک قوم کے درمیان رہائش پذیر تھیں۔ حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہا نے جس وقت بیوگی کی چادر اوڑھی اس وقت ان کی عمر مبارک پچاس سال سے اوپر تھی، وہ اس قابل نہیں تھی کہ کوئی ان سے شادی کرتا اور ان کا معاشی اور معاشرتی سہارا بنتا ، اپنے گھر جاتیں تو ان کے گھر والے کفار تھے اور جیسے دوسرے مؤمنین کو وہ اذیتیں دے رہے تھے انہیں بھی اذیتوں میں مبتلا کر دیتے اور دوبارہ کفر میں داخل ہونے پر زبردستی کرتے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان سے نکاح کر لیا۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے شوہر بھی جنگ احد میں شہید ہوگئے تھے ، انھوں نے اور ان کے شوہر نے اللہ کے راستہ میں بہت زیادہ صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کیں ، ان کا یوں بے یار ومددگار رہ جانا بہت بڑا حادثہ تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بچوں سمیت ان کے سہارے کیلئے ان سے نکاح کر لیا ، اس طرح حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا سے نکا ح کیا ، انکے شوہر بھی جنگ احد میں شہید ہوگئے تھے ، حضور اکرم نے ان سے شادی کرلی۔ اس کے بعد جب آپ نے حضرت سوداؓ سے شادی کی تو وہ بھی ایک بیوہ تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے جب نکاح فرمایا تو اس وقت یہ بھی بیوہ تھیں اور ان کے والد قبیلہ بنی المصطلق کے سردار تھے، یہ قبیلہ مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کے درمیان رہتا تھا ۔ حضور اکرم نے اس قبیلہ سے جہاد کیا، ان کا سردار مارا گیا ۔حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا قید ہو کر آئیں تو پھر حضور اکرم نے ان سے نکاح فرمایا۔ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے نتیجہ میں مسلمانوں نے بنی المصطلق کے سب قیدی رہا کر دیئے اور وہ بعد میں سب مسلمان بھی ہو گئے ۔
اُم المومنین سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا مقصد ایک ایسے محبوب ترین رفیق اور دوست سے رشتہ کی استواری تھی جس نے مکہ کے مشکل ترین دور میں آپ کا ساتھ دیا، معراج کی حیران کن خبر کی تصدیق سب سے پہلے سیدنا صدیق اکبرؓ نے کی۔ غار ثور کی ہولناک تاریکی میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ساتھ دیا اور آپ پر اپنی ہر متاع عزیز لٹانے کی کوشش کی ، جو آپکے اولین جانشین ہوئے اور مزاج نبوت کے حامل صحابیؓ اور رفیق رسول تھے ،انکے ساتھ رشتہ داری کاتعلق قائم کرنا ان کے احسانات و محبت کا قلبی وعملی اعتراف تھا ۔اس کے علاوہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ شادی میں یہ حکمت بھی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حرم میں کوئی ایسی چھوٹی عمر کی خاتون داخل ہو جس نے اپنی آنکھ اسلامی ماحول میں ہی کھولی ہو اور پھر نبی کریم کے گھرانے میں آ کر پروان چڑھے تاکہ اس کی تعلیم و تربیت ہر لحاظ سے مکمل اور مثالی طریقہ پر ہو اور وہ مسلمان عورتوں اور مردوں میں اسلامی تعلیمات پھیلانے کا موٴثر ترین ذریعہ بن سکے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی اس نوعمری میں کتاب وسنت کے علوم میں گہری بصیرت حاصل کی۔ اسوئہ حسنہ اور آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اعمال و ارشادات کا بہت بڑا ذخیرہ اپنے ذہن میں محفوظ رکھا اور درس و تدریس اور نقل و روایت کے ذریعہ سے اُسے پوری امت کے حوالے کردیا۔
ابو سفیان رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شدید ترین مخالف تھے مگر جب ان کی بیٹی سیدہ اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا سے حضور نبی کریم کا نکاح ہوا تو یہ دشمنی کم ہوگئی اور بعد ازاں عرب قبیلے کا یہ طاقتور ترین سردار اپنے خاندان اور قبیلے سمیت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے غلاموں میں شامل ہو گیا اور اپنی باقی ماندہ زندگی اسلام کی سربلندی میں گذار دی ۔
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کی صاحبزادی حضرت سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی جو بیوہ تھیں ، انکے شوہر خنیس بن حذافہؓ جنگ احد میں شہید ہوئے تو حضرت عمر فاروقؓ اپنی بیٹی کی بیوگی سے بہت پریشان ہوگئے اور چند اکابر صحابہ کرامؓ سے اس کا تذکرہ بھی کیا یہاں تک کہ خود حضور اکرم نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کرلیا ، یہ رشتہ کرنے سے حضرت عمر فاروقؓ کی دل جوئی اور معاونت کا سبب بھی بنا ، اس طرح اسلامی تحریک کے درجہ اول کے دو اہم ترین افراد (سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ) سے حضور اکرم کا رشتے کا قریب ترین تعلق پیدا ہوگیا ۔اسی طرح حضرت میمونہؓ سے رسول اللہ کی شادی بھی اسلام اور مسلمانوں کی عرب معاشرے میں سماجی و سیاسی تقویت کا سبب بنی۔ حضور اکرم کا کوئی ایک نکاح بھی ایسا نہیں تھا جس نے اسلامی انقلاب کے لئے راستہ ہموار کر نے میں کوئی مدد نہ دی ہو.
مختصر یہ کہ اگر اسلامی تاریخ کا صاف نیت کے ساتھ مطالعہ کر لیا جائے تو بخوبی علم ہو جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شادیوں کا دنیاوی اغراض و مقاصد سے ہرگز کوئی تعلق نہیں تھا، اگر اس کے باوجود کوئی جہالت پر اصرار جاری رکھے تو یقیناً دلائل سے اسے قائل نہیں کیا جا سکتا۔
تلخ مشروب... غصہ
30/12/2024
غصہ ایک جذباتی حالت ہے جو انسان کے اندر کسی بات یا صورتحال سے ناراضگی، ناپسندیدگی یا پریشانی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایک قدرتی اور معمول کا جذباتی ردعمل ہے جو مختلف وجوہات کی بناء پر ظاہر ہو سکتا ہے، جیسے کہ ناانصافی، غم، یا کسی کی طرف سے تکلیف پہنچانا۔
دل لگا گدھی سے تو پری کیا چیز ہے
30/12/2024
مردوں کا چھپ کر دوسرا نکاح کرنا ہمارے معاشرتی اور ثقافتی ڈھانچے میں ایک پیچیدہ مسئلہ بن چکا ہے، جس کا تعلق صرف شرعی اجازت سے نہیں بلکہ اخلاقی، نفسیاتی اور سماجی پہلوؤں سے بھی جڑا ہوا ہے۔ اس مسئلے پر سیر حاصل بحث کرنا ضروری ہے تاکہ اس کے مختلف پہلوؤں کو سمجھا جا سکے اور معاشرتی طور پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا جا سکے.