دلچسپ حکایات رومی
02/10/2023
بہت دن ہوئے مولانا عبدالماجد صاحب دریابادی رحمت اللہ کا ایک مضمون پڑھا تھا ’’جھوٹ میں سچ‘‘ اس میں انہوں نے مشرق اور مغرب کے ادبیات کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ مشرق کے جھوٹ میں سچ ہوتا ہے۔ سچ سے ان کی مراد نصیحت پذیری اور عبرت سے تھی، زیادہ تر مثالیں مولانا روم سے لائے تھے۔ مگر مولانا روم مجھ کم فہم کی رسائی سے کچھ بالا تھے کلام پاک و رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کے ٹکڑے اشعار میں پروئے ہوئے۔ آخر مثنوی ’’ہست قرآن در زبان پہلوی‘‘ کیوں کہلائی! تھی۔ اس مثنوی کے دفاتر سے عنوانات کی مدد سے ان حکایتوں کو دریافت کیا جو مزاح کی فضا رکھتی تھیں۔ انہیں آپ کے سامنے رکھتی ہوں اور اپنی عاقبت سنوارنے کے لیے وہ نصیحت بھی لکھوں گی جو قصہ کا ماحصل ہوتا ہے۔ میں ان کی حکایتوں کو چن رہی ہوں جو ہلکی ہیں اور جن کے معنی کی لطافت اک دم سامنے آجاتی ہے ان شعری حکایتوں میں مزاح ہے اور واقعات اپنے دلچسپ بیان کے سبب سے لطف پیدا کرتے ہیں۔
جس قصہ سے ابتدا کر رہی ہوں وہ باوجود مزاحیہ ہونے کے غم کی چاشنی رکھتا ہے۔ ایک صاحبِ حیثیت آدمی انتقال کر گیا۔ جب اس کا جنازہ قبرستان جانے لگا تو اس کے بیٹے نے واویلا شروع کیا۔ “یہ لوگ آپ کو ایسی جگہ لے جارہے ہیں جہاں نہ قالین ہو گا نہ روشنی، نہ روٹی ہو گی نہ پانی، کوئی دروازہ نہ ہو گا۔ کوئی چھت نہ ہو گی۔ کوئی پڑوسی نہ ہو گا۔ آپ وہاں کیسے گزر کریں گے۔” ایک چھوٹا غریب بچہ اپنے باپ کے ساتھ کھڑا یہ سب سن رہا تھا، باپ سے کہنے لگا کہ یہ لوگ انہیں ہمارے گھر لے جارہے ہیں؟ یہ تو بالکل ہمارے گھر کا نقشہ ہے۔ باپ ڈانٹتا ہے مگر بچہ کی سمجھ میں بات نہیں آتی۔ وہ اس بات پر مصر ہے کہ مردہ اس کے گھر جارہا ہے۔
“گفت جو جی راپد رابلہ شو
گفت اے بابا نشانیہا شنو”
(ترجمہ : باپ نے بچے سے کہا کہ بے وقوف نہ بنو۔ بیٹے نے کہا کہ اے بابا! سب نشانیاں تو سن لیجیے۔)
مولانا رومؒ نے کوئی عبرت کی بات ضرور پیدا کی ہو گی لیکن سمجھ میں یہ آتا ہے کہ غریب کے گھر اور قبر میں فرق کم ہوتا ہے۔
مؤذن بدآواز کا قصہ بہت دلچسپ ہے۔ ایک قافلہ کے ساتھ ایک کرخت آواز کا مؤذن جارہا تھا۔ ایک جگہ پڑاؤ ہوا۔ نماز کے لیے لوگ تیار ہونے لگے۔ مؤذن نے کہا میں اذان دوں گا لوگوں نے بہت منع کیا کہ اجنبی جگہ ہے پتا نہیں لوگ کیسے پیش آئیں مگر وہ تُل گیا اور اذان دے کر ہی چھوڑی۔
تھوڑی دیر میں ایک شخص بہترین کھانا اور لباس لیے ہوئے آیا اور کہا وہ صاحب کہاں ہیں جنہوں نے ابھی بانگ دی تھی۔ میرے اوپر ان کا بڑا احسان ہے اور یہ تحائف ان کے لیے ہیں۔ قافلہ والوں کو بڑی حیرت ہوئی اور اس کی وجہ پوچھی اس نے بتایا کہ اس کی بیٹی ہے جو اسلام کی طرف بہت مائل تھی۔ آج اس نے جو یہ بھیانک آواز سنی تو گھبرا کر بولی کہ یہ کیا ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ اس مذہب کا طریقہ ہے جس کی طرف تم بہت مائل ہو۔ بس اک دم وہ راہِ راست پر آگئی۔
مولانا نے ان لوگوں پر تنقید کی ہے جو اپنے کو صاحبِ ایمان کہتے ہیں مگر اپنے مزاج اور اپنے اعمال کے لحاظ سے خود ایمان سے محروم ہیں۔
“ہست ایمان شمازرق و مجاز
راہزن ہمچوں کہ آں بانگ نماز”
(ترجمہ : تمہارا ایمان خالص ریا کاری اور غیرحقیقی لگتا ہے اور اس طرح دھوکہ دیتا ہے جیسے مؤذن کی بد آوازی۔)
ایک مجوسی کو دعوت اسلام دینے پر مولانا نے جو لکھا ہے وہ واقعی بے حد سبق آموز ہے۔ حضرت بایزید بسطامی رحمت اللہ کے زمانے میں کسی مسلمان نے ایک آتش پرست کو مسلمان ہونے کی تلقین کی۔ اس نے کہا کہ تم بایزید کے اسلام کی بات کرتے ہو تو مجھے اس کی طاقت نہیں اور اگر اپنے اسلام کی بات کرتے ہو تو تمہارا ایمان اور معاملات دیکھ کر جسے کچھ خواہش بھی مسلمان ہونے کی ہو اُس کا دل ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔
“آنکہ صد میلش سوئے ایماں بود
چوں شمار ادید آں باطل شود”
(ترجمہ : جس کی بے حد خواہش ایمان لانے کی ہو جب تمہیں دیکھے گا تو ارادہ ختم ہو جائے گا۔)
اس آتش پرست کی تھیوری آج کل کے زمانہ میں زیادہ صحیح نظر آتی ہے۔ اگر کوئی غیرمسلم یہ دیکھے کہ مسلمان چور نہیں ہوتے، بدمعاش نہیں ہوتے، بے ایمان نہیں ہوتے، تو وہ سوچے گا یہ ان کے مذہب کی برکت ہے مگر وہ جب ساری بداعمالیاں جو اس قوم میں ہوں مسلمانوں میں بھی پائے گا تو اس کا دل اسلام کی طرف کیوں آئے گا۔ مسلمانوں کے مذہب کے نمائندے اگر ﷲ تعالی کی قدرت سے ایسے ہوں کہ ان کے چہرے کے گرد نور کا ہالہ ہو تب ہی بات سمجھ میں آئے۔ اس قصہ میں واقعی مولانا نے بے عمل مسلمانوں کا بہترین نقشہ کھینچا ہے اور انہیں ملامت کی ہے۔
اسی طرح ایک بقّال اور طوطے کا قصہ لکھا ہے جب بقّال دکان پر نہ ہوتا تو وہ دکان کی نگرانی کرتا۔ ایک مرتبہ طوطے نے بلی کے ڈر سے اڑ کر تیل کی شیشی گرا دی۔ جب بقّال واپس آیا تو اس نے تاؤ میں آکر طوطے کے سر پر ایک ہاتھ مارا جس سے اس کے بال جھڑ گئے۔ طوطے نے بولنا چھوڑ دیا۔ بقّال بہت افسردہ ہوا۔ ایک دن ایک گنجا ادھر سے گزرا، طوطا دیکھتے ہی بولا کہ کیا تو نے بھی روغن گرایا ہے۔
تو مگر از شیشہ روغن ریختی
(ترجمہ: کیا تو نے بھی شیشے سے تیل گرایا ہے۔)
اب مولانا نتیجہ نکالتے ہیں کہ ظاہری شکل و صورت پر نہیں جانا چاہیے۔ (طوطے کی بات پر لوگ ہنسے تھے۔)
از قیاسش خندہ آمد خلق را
کوچہ خود پند اشت صاحب دلق را
ترجمہ : اس کے اس اندازے سے سارے لوگ ہنسنے لگے کہ اپنے اوپر اس نے اس فقیر کا گمان کیا۔)
مولانا منافقت اور ریاکاری کے شدید دشمن ہیں۔ وہ لوگ جو مومن نظر آئیں مگر ہوں نہیں۔ وہ لوگ جو صوفی نظر آئیں مگر ہوں صرف شکل و صورت کے۔ اچھی اچھی روحانی باتیں کرتے ہوں مگر مزاج شیطانی ہو اور نہ نظر آنے والے اعمال (چوں بہ خلوت می روند) سیاہ ہوں۔ ان کے لیے مولانا نے جو شعر لکھا ہے وہ زباں زد ہو گیا ہے۔
چوں بسا ابلیس آدم روئے ہست
پس بہر دستے نباید داد دست
(ترجمہ: نہ معلوم کتنے ایسے ابلیس ہیں جن کی شکل آدمیوں جیسی ہے پس ہر ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دینا چاہیے۔)
اس قصہ کا ایک شعر ہے۔
کارِ مرداں روشنی و گرمی است
کارِ دوناں حیلہ و بے شرمی است
(ترجمہ: جواں مردوں کا کام روشن و گرم۔۔۔ یہاں گرم سے مراد مسلسل محنت ہوتا ہے اور کمینوں کا کام حیلہ و بے شرمی)۔
اب میں وہ قصہ لکھتی ہوں جسے میں نے بہت پہلے کسی کتاب میں پڑھا تھا، (اس وقت مولانا روم تک رسائی نہیں ہوئی تھی)۔(واقعہ)۔۔۔ایک عرب بیٹھا ہوا اپنے مرتے ہوئے کتے کے غم میں رو پیٹ رہا تھا، کسی نے پوچھا کہ کیوں رو رہے ہو تو اس نے کتے کی وفاداری اور چوکیداری کا ذکر کیا، وجہ پوچھنے پر کہ کیوں مر رہا ہے عرب نے بتایا بھوک سے مر رہا ہے عرب کے پاس ایک تھیلہ تھا پوچھنے والے نے کہا اس میں کیا ہے؟ اس نے کہا روٹیاں ہیں۔۔۔ سفر کے لیے رکھ لی ہیں، کہا اس میں سے آدھی روٹی کتے کو کیوں نہیں دے دیتے؟ عرب نے کہا کہ کیوں دے دوں۔۔۔ اس میں پیسہ لگتا ہے، آنسو مفت کے ہیں بہا رہا ہوں۔ پوچھنے والے نے بڑی لعنت ملامت کی۔ مولانا نے ان لوگوں پر یہ چوٹ کی ہے جو زبان سے مظلوم اور بیکسوں کو تسکین دیتے ہیں اور بے حد ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں لیکن کسی نمونہ کی مدد کرنے سے بالکل گریز کرتے ہیں۔ یہ صحیح معنوں میں منافق لوگ ہوتے ہیں خواہ کتنے ہی عبادت گزار نظر آئیں۔ اس پوچھنے والے نے عرب پر لعنت ملامت بھیجی کہ تیرے لیے روٹی آنسو سے زیادہ اہم ہے۔
ابھی دو ایک قصے جو میں نے سنائے ہیں، وہ بڑوں کی ریاکاری اور نمائش کے تھے مولانا نے چھوٹوں کو بھی نہیں چھوڑا ہے۔ ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جو ان بزرگوں کے پاس پہنچتے ہیں جن کی روحانیت ان کو مرجعِ خلائق بنائے ہوتی ہے۔ اپنی ادنیٰ خواہشوں کی تکمیل کے لیے وہ ان بزرگوں کو پریشان کر ڈالتے ہیں لیکن باوجود ناشائستگی اور کوفت کے یہ بزرگ انہیں بھگاتے نہیں۔ مولانا نے کہا کہ کوئی بھیڑیا بھی ان بزرگوں کی خدمت میں آئے تو اسے زیادہ قابلِ قبول ہونا چاہیے کیونکہ وہ فریبی اور مکار نہ ہو گا۔
گرگ دریا بدولی رابہ بود
ز آنکہ دریا بدولی را نفس بد
(ترجمہ: اگر کوئی بھیڑیا کسی ولی کے پاس چلا جائے تو زیادہ بہتر ہے بجائے اس کے کہ کوئی بد نفس ولی کے پاس پہنچے)
پھر انہوں نے ایک بڑے آدمی کا قصہ سنایا جو مسجد جارہا تھا اور راہ صاف کرنے کے لیے، اس کے ملازمین راہ چلنے والوں کو ڈنڈے مار رہے تھے۔ ایک بزرگ پر بھی ڈنڈا پڑا۔ اس نے کہا کہ تو نیکی کا کام کرنے کے لیے مسجد کی طرف جا رہا ہے اور یہ ظلم کر رہا ہے جب تیرا خیر ایسا ہے تو شر کیسا ہو گا؟؟
شیخ سعدی رحمت اللہ نے اپنے مرنجاں مرنج مزاج ( اللہ جس حال میں رکھے اس میں مطمئن اور خوش رہنا) سے یہ تلقین کی ہے کہ ایسے بد لوگ جن پر تمہارا قابو نہ چلے ان سے نہ الجھو۔ شیخ سعدی کہتے ہیں کہ جس نے لوہے کے بازو والے سے پنجہ لڑایا اس نے اپنی چاندی جیسی کلائی کو تکلیف پہنچائی۔
تقریباً یہی بات مولانا روم نے کہی ہے کہ جب بے وقوف لوگ سردار بن جائیں تو عقلمند لوگوں کو چادر میں اپنا منہ چھپا لینا چاہیے۔ بطور جملہ معترضہ یہ بات کہتی چلوں کہ یہاں مرید ہندی پیر رومی سے ہم خیال نہیں ہے۔
احمقاں سر و رشد ستند و زبیم
عاقلاں سرہا کشیدہ در گلیم
(ترجمہ: احمق لوگ بڑے آدمی بن رہے ہیں اور ان کے خوف سے عقل مند لوگ چادر میں اپنا سر چھپا رہے ہیں۔)
مولانا نے خود کسی لائق نہ ہونے اور بزرگوں پر فخر کرنے کو بڑی حقارت سے دیکھا ہے۔ انہوں نے ایک مینڈھے، ایک بیل اور ایک اونٹ کا قصہ لکھا ہے جنہیں ایک گھاس کا گٹھا مل گیا۔ مینڈھے نے کہا چونکہ یہ گٹھا سب کا پیٹ نہیں بھر سکتا اس لیے ہم میں جو سب سے زیادہ عمر رسیدہ ہو وہ اسے کھائے۔ مینڈھے نے کہا کہ میں اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ پر ذبح ہونے والا مینڈھا ایک ہی چراگاہ میں چرتے تھے۔ بیل نے کہا کہ میں اس بیل کا ساتھی ہوں جس نے حضرت آدم کا ہل چلایا تھا۔ اونٹ نے منہ اٹھا کر اس گٹھے کو کھالیا اور کہا کہ “حصہ جسم کے مطابق ہونا چاہیے”۔ تم لوگ تاریخ سے اپنی بڑائی ڈھونڈ رہے ہو حالانکہ بڑائی اس میں ہے کہ اس وقت کس حال میں ہو۔
اب میں وہ قصہ سناتی ہوں جس میں ایک نجومی نے کشتی میں بیٹھے ہوئے ملاح سے پوچھا کہ تمہیں کچھ نحو آتی ہے۔ اس نے کہا نہیں تو کہا کہ تیری آدھی عمر ضائع ہوئی۔ پھر کشتی بھنور میں پھنسی تو ملاح نے کہا کہ تیرنا جانتے ہو تو نجومی نے کہا نہیں۔ ملاح نے کہا تمہاری پوری عمر ضائع ہو گئی۔
مولانا نے تیراکی کو نحو جاننے پر فضیلت دی۔ واقعہ یہ ہے کہ اس میں طنز ہے، اپنے علم پر غرور کرنا اور دوسرے کے علم کو حقارت سے دیکھنا کسی عالم کے شایانِ شان نہیں۔
اس مضمون کا خاتمہ میں اپنی نگاہ میں مولانا روم کے سب سے بہتر قصے پر کرتی ہوں جس میں ایک بزرگ دن میں چراغ لے کر گھوم رہے تھے تاکہ کسی انسان کو وہ ڈھونڈ لے۔ ایسا انسان جو خدا کا شیر اور جنگ کا رستم ہو۔ لوگوں نے کہا ایسا انسان تو ملنے کا نہیں بزرگ نے کہا جو نہ ملے اسی کی آرزو ہے۔
گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزو ست
(ترجمہ: کہا یہ کہ جس کو ہم ڈھونڈ رہے ہیں وہ ہمیں مل نہیں پارہا ہے اس نے کہا کہ جو نہ مل پائے اسی کی مجھے خواہش ہے۔)
محدود علم اور محدود عقل رکھنے والی یہ حقیر لکھنے والی مضمون ختم کر کے یہ محسوس کر رہی ہے کہ کیا مولانا روم پر کچھ لکھنے کی اس کی بساط تھی۔ ان کو تو سمجھنے کے لیے کلامِ پاک اور احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھرپور واقفیت چاہیے۔ زبان فارسی کی زبردست مہارت ہونی چاہیے، (یہاں تو ایک ایک شعر گوگل کر کے ترجمہ ڈھونڈ نکالا ہے) باطن کی حس ایسی ہونی چاہیے جو صوفیانہ رموز کو بغیر کسی کی مدد کے کھول لے، محبت معرفت اور نگاہ سے معاملہ ہونا چاہیے۔ دل میں حرارت اور یقین کی روشنی ہونی چاہیے۔ ان سب باتوں سے اس کا تعلق کہاں ہے۔ پھر اتنی بڑی جرأت کیوں کہ کہ مولانا روم پر مضمون لکھے۔ بقول حضرت مولانا علی میاں رحمت اللہ، وہ مولانا جنہوں نے اپنے عشق کی گرمی سے اس برف کو پگھلا دیا جو ظاہر داروں کے دل کو ڈھانکے ہوتی ہے جنہوں نے محدود عقل کو باطن کے رموز کھولنے کے لیے ناکافی بلکہ بیکار پایا۔ بحث و استدلال کو ایک منفی چیز سمجھا اور بتایا۔ ان پر تو محبت اور معرفت کا نشہ طاری تھا، جنہوں نے فرمایا تھا:
درجہاں یارب ندیم من کجا ست
نخل سینا یم کلیم من کجا ست
(ترجمہ: اے میرے ﷲ! اس دنیا میں میرا کون دوست ہے۔۔۔ کوہِ سینا کا درخت ہوں، لیکن کلیم کہاں ہے؟)
جن کے کلام میں سوز و درد، ایماں اور یقین بھرا ہو، مثنوی کی تاثیر خود مولانا کے سوزِ دل سے ہے۔