حقوق العباد
26/12/2022
حقوق العباد اپنی نوعیت کے اعتبار سے نہایت وسیع اور جامع موضوع ھے۔ پچھلے ہفتے کی اپنی قرآن کلاس میں حقوق العباد سے متعلق جو کچھ سیکھنے کو ملا وہ پیش خدمت ھے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو جو احکام دیئے ہیں ان میں دو قسم کے فرائض بندوں پر لازم ہوتے ہیں : ایک وہ فرائض اور ذمہ داریاں ہیں جو بندے پر اللہ تعالیٰ کے حق کے طور پر عائد ہوتی ہیں جیسے ایمان لانا، نماز پڑھنا، روزہ رکھنا وغیرہ۔ اِن فرائض کو حقوق اللہ کہاجاتا ہے۔ دوسرے وہ فرائض اور ذمہ داریاں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ایک بندے پر دوسرے کیلئے لازم کی ہیں۔ ان فرائض اور ذمہ داریوں کو حقوق العباد کہا جاتا ہے۔ یہ حقوق العباد (بندوں کے حقوق) ، اس اعتبار سے زیادہ اہم ہیں کہ ان میں اگر کوتاہی ہو جائے اور بندہ اگر ان کو ادا نہ کر سکے تو صرف توبہ واستغفار سے معاف نہیں ہوتے جب تک کہ، جس بندے کے حق میں کوتاہی کی ہے وہ معاف نہ کر دے، جب کہ حقوق اللہ (اللہ کے حقوق) صرف توبہ واستغفار سے معاف ہو جاتے ہیں۔ بلکہ اگر بندہ توبہ بھی نہ کر سکے تو اللہ تعالیٰ آخرت میں سزا دیئے بغیر صرف اپنے فضل وکرم سے معاف کر سکتے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ اس بات کو (سزا دے کر بھی) نہ بخشیں گے کہ ان کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا جائے (بلکہ ہمیشہ سزا میں مبتلا رکھیں گے) اور اس کے سوا اور جتنے گناہ ہیں (خواہ صغیرہ ہوں یا کبیرہ) جس کے لئے منظور ہوگا (بلا سزا) وہ گناہ بخش دیں گے۔‘‘ (بیان القرآن) (سورۃ النساء آیت :48)دوسری طرف حقوق العباد کے سلسلے میں نبی اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: ’’شہید کا ہر گناہ معاف کر دیا جاتا ہے سوائے قرض کے۔‘‘ (مسلم شریف) کسی شخص کا قرض کسی کے ذمے میں ہے تو جب تک ادا نہ کر دے وہ معاف نہیں ہو سکتا خواہ کتنا ہی بڑا نیک عمل کر لے، یہاں تک کہ اللہ کے راستے میں اپنی جان ہی کیوں نہ دے دے۔ ایک حدیث شریف میں آپ ﷺ نے بندوں کے حقوق کی اہمیت اس انداز سے بیان فرمائی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حقوق العباد میں کوتاہی نہ صرف یہ کہ آخرت میں سخت باز پرس کا سبب بنے گی بلکہ اللہ تعالیٰ کے ادا کئے ہوئے حقوق بھی اکارت ہو جائینگے، بندوں کے حقوق میں غفلت اور زیادتی کرنے والے لوگ اپنی نماز، روزے اور دیگر عبادتوں کا ثواب حاصل نہ کر سکیں گے، ان عبادتوں کا ثواب ان مظلوم بندوں کو دے دیا جائے گا جن کے حقوق ان عبادت گزار بندوں نے پامال کئے ہوں گے۔ مزید برآں اگر ظلم اور زیادتی کی تلافی ظالموں کی نیکیوں سے نہ ہو سکی تو مظلومین کے گناہوں کا بوجھ ظالموں کے سروں پر ڈال دیا جائے گا۔ چنانچہ ارشاد نبوی ﷺ ہے : ’’کہ تم لوگ جانتے ہو فقیر کون ہوتا ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا کہ فقیر تو وہ ہے جس کے پاس مال و دولت نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں (دراصل) فقیر وہ ہے جو کل قیامت کے دن نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج کی عبادتیں لے کر حاضر ہوگا لیکن دنیا میں کسی کو ناحق ستایا تھا، کسی پر جھوٹا الزام لگایا تھا، کسی کا ناحق مال لیا تھا، کسی کی عزت پر حملہ کیا تھا، کسی کو ظلماً و جبرا” مارا تھا اور کسی کو ناحق قتل کیا تھا، اب قیامت کے دن ہر مظلوم آدمی اس ظالم کی نماز ، روزہ، حج اور زکوٰۃ کے ثواب سے ظلم کے بقدر ثواب لے کر جائے گا۔ اب اگر ظالم کے اچھے کاموں کے ثواب سے سب کا حق ادا ہوگیا تو ٹھیک ہے ورنہ باقی مظلوموں کے گناہوں کو سمیٹ کر اس ظالم پر ڈال دیا جائے گا اور جہنم میں دھکیل دیا جائیگا۔‘‘ (مسلم شریف)
اب ذہن میں یہ سوال آسکتا ہے کہ ہم پر کن کن لوگوں کے حقوق واجب ہیں تو اس سلسلہ میں قاعدہ تو یہ ہے کہ دنیا کی کوئی شئے ایسی نہیں ہے جس کا ایک دوسرے پر حق نہ ہو۔ علماء کرام نے اس حوالے سے ایک آیت کریمہ کو بنیاد بنایا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا یہ جامع و بلیغ کلام ہے : ’’وہ ذات پاک ایسی ہے جس نے پیدا کیا تمہارے فائدے کیلئے جو کچھ بھی زمین میں موجود ہے سب کا سب۔‘‘ (سورۃ البقرة، آیت نمبر 29) اس آیت کریمہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ہر شے سے وہ نفع اٹھایا جائے جس کیلئے اللہ نے اس کو پیدا کیا ہے اور ان موقعوں پر اس کو صَرف کیا جائے جن میں صَرف کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان کا دنیا کی ہر چیز سے نفع کا تعلق ہے، ایک طرح کا لگاؤ ہے، اس لگاؤ کا تقاضا یہ ہوگا کہ اس کی ترقی و حفاظت کی کوشش کی جائے اور ہر اس پہلو سے بچایا جائے جس سے اس کا نفع ختم ہو جائے یا نفع پہنچانے میں رکاوٹ اور نقصان پیدا ہو اور اسی کا نام حق ہے جس کو خود ادا کرنا ضروری ہے۔ اس آیت کے ضمن میں علماء نے لکھا ہے کہ ہر شے کے، خواہ جاندار ہو یا غیر جاندار، ایک دوسرے پر حقوق ہیں۔ شاید اسی لئے، اس آیت سے کچھ پہلے کفار و فساق کی بُری صفات بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : ’’یہ فاسق اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں، اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ہے اُسے کاٹتے ہیں، اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ حقیقت میں یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔‘‘(سورۃ البقرہ :27)
یہ تو ایک عام ضابطہ ہوا، اس کے علاوہ قرآن و حدیث میں اس قدر تفصیل سے بندوں کے حقوق کو بیان کیا گیا ہے کہ شاید ہی دوسرے حقوق پر اتنی تفصیل وارد ہوئی ہو، مثلاً ارشاد خداوندی ہے: ’’اور والدین کے ساتھ اچھا معاملہ کرو اور اہل قرابت کے ساتھ بھی، اور یتیموں کے ساتھ بھی اور غریب غرباء کے ساتھ بھی اور پاس والے پڑوسی کے ساتھ بھی اور دور والے پڑوسی کے ساتھ بھی اور ہم مجلس کے ساتھ بھی اور راہ گیر کے ساتھ بھی اور ان کے ساتھ بھی جو تمہارے مالکانہ قبضے میں ہیں۔‘‘ (سورۃ النساء:36)
اس آیت کریمہ کی جامعیت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سارے عالم کے انسانوں کے حقوق ادا کرنے کی وصیت فرمادی گئی اور لطیف پیرائے میں ان کے اہل حقوق میں ترتیب بھی قائم ہو گئی کہ والدین کا حق اہل قرابت پر مقدم ہے اور اہل قرابت کا یتیموں وغیرہ پر، اسی طرح تمام اہل حقوق میں ترتیب ہے لیکن یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ یہ ترتیب اسی وقت ہے جب کہ یہ اہل حقوق (یعنی جن کا حق ہے وہ) حق پر قائم ہوں اور اگر کوئی باطل پر ہے مثلاً اہل قرابت اور یتیموں کا کوئی معاملہ ہے اور یتیم حق پر ہیں تو محض قرابت کی بنیاد پر اہل قرابت کا تعاون نہیں کیا جائے گا۔ اس کو عصبیت کہا جاتا ہے جو شریعت میں انتہائی مذموم عمل ہے۔
ایک سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ بندوں کے کیا کیا حقوق ہم پر واجب ہیں: تو اس سلسلے میں بات اصل وہی ہے جو اوپر ذکر کی گئی کہ ہر اس پہلو سے بچا جائے جس سے اس کا نفع ختم ہو جائے یا اس کے نفع پہنچانے میں رکاوٹ اور نقصان پیدا ہو۔ اس کی تفصیل یہ کی جاسکتی ہے کہ خلق خدا کی جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی جائے۔ دولت، عزت، علم اور جو اللہ تعالیٰ نے نعمتیں ہم کو دی ہیں ان کو بانٹا جائے۔ والدین، رشتہ دار، پڑوسی اور ضرورت مندوں کی خدمت کریں، ان کی مشکلات میں سہارا بنیں، کسی کا مال نہ کھائیں، اپنے ماتحتوں سے ہمدردی کریں اوران کے آرام و ضروریات کو پیش نظر رکھیں۔ حق تو یہ ہے کہ یہ چیزیں اس وقت معلوم ہو سکتی ہیں جب دل میں یہ جذبہ پیدا ہو جائے کہ دین میں مجھ سے کیا کیا تقاضے وابستہ ہیں اور یہ جذبہ علماء کرام اور اولیاء کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے جس کی ہر مسلمان کو کوشش کرنی چاہئے۔