حق / سچ
29/11/2022
لوگ جوق در جوق جمع ہوتے ہیں… آنکھوں میں حیرت و استعجاب اور سوال ہیں… وہ ہستی ان لوگوں سے مخاطب ہوکر کہتی ہے… اے لوگو! اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑی کے اس پار دشمن ہے جو تم پر حملہ کرسکتا ہے… کیا تم یقین کروگے؟ سب ایک زبان ہوکر کہتے ہیں… ہاں! ہم یقین کرتے ہیں… کیوں کہ آپ سچے ہیں‘ صادق ہیں… امین ہیں۔
تو پھر سن لو… ہمارا معبود ایک ہے… اسی نے ہمیں پیدا کیا،زندگی اور موت سب کچھ اس کے اختیار میں ہے۔
اس ہستی کے الفاظ سن کر کچھ پر سکتا طاری ہوجاتا ہے… کچھ غیض و غضب میں اول فول بکنے لگتے ہیں… وہی لوگ جنہوں نے کچھ لمحات قبل انہیں صادق و امین کہا تھا.. ان ہی کے خلاف ہوجاتے ہیں، مگر کچھ ایسے بھی تھے جن کے دل گواہی دے رہے تھے کہ اس بات میں دم ہے… اور یہ دم… سچ کی پہچان تھا۔
جنہوں نے مخالفت کی… ان میں سے بیشتر نے اس ہستی کو خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وسلم) تسلیم کیا… ان پر ایمان لے آئے جو ایمان کی دولت سے محروم رہے… وہ بدبخت بھی دل سے سچائی کا اعتراف کیا کرتے… اور دنیا کی تاریخ کے اوراق گوا ہیں کہ سچ 23 برس میں سارے عالم پر چھاگیا… ساڑھے چودہ سو برس گزر گئے۔ دنیا کی تمام باطل طاقتیں متحد ہوکر سچ کو مٹا نہ سکیں۔ سچ بولنے والوں، سچ کی راہ پر چلنے والوں کو بھی آزمائشی مراحل سے گزرنا پڑا… اور مستقبل میں بھی گزرنا ہوگا۔
سچ بولنا جتنا مشکل ہے، سچ لکھنا اس سے کہیں زیادہ… زبان سے کہے ہوئے الفاظ کے معنی وقت اور حالات کے لحاظ سے بدل جاتے ہیں،کبھی یہ کہہ کر اپنی جان چھڑائی جاتی ہے کہ کہے ہوئے الفاظ کو غلط سمجھا گیا یا اس کی ترجمانی مناسب نہیں کی گئی۔ اس کے برعکس لکھے ہوئے لفظ، پتھر کے نقوش کی طرح ہوتے ہیں جو مٹائے نہیں مٹتے… یہ دستاویزی ثبوت بن جاتے ہیں۔
آخری آسمانی صحیفہ کو بھی لکھ کر محفوظ کردیا گیا… یہ صحیفہ، جسے ہم قرآن مجید کہتے ہیں۔ سچائی کا سب سے بہترین نمونہ ہے۔
صحافت بھی تو صحیفہ سے نکلا ہے… اس لئے صحافیوں کو بھی وہی پیغام عام کرتا ہے جو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن تھا۔ صحافت ہر دور میں ایک عظیم مشن رہا۔ اس کا مقصد باطل کو مٹانا، حق کو پھیلانا، عوام میں شعور کی بیداری، معلومات کی فراہمی، برائی سے روکنا، اچھائی کی ترغیب دینا رہا۔
وقت کے ساتھ ساتھ تجارتی مقاصد، ذاتی مفادات، منفعت کی حرص نے صحافت کے مشن کو بھی بدل کر رکھ دیا جس کی وجہ سے صحافت کا وقار اور صحافیوں کی قدر و منزلت متاثر ہونے لگی…
صحافتی ادارے خواہ وہ پرنٹ ہوں یا الکٹرانک قارئین اور ناظرین کے اعتماد سے محروم ہونے لگے ہیں۔ نہ تو کسی ایک اخبار پر نہ ہی کسی ایک ٹیلی ویژن چینل پر کوئی یقین کرتا ہے۔ کسی خبر کی صداقت کے لئے کسی ایک اخبار یا ٹیلی ویژن چینل پر اکتفا نہیں کیا جاتا۔
ایک ایسے دور میں جب میڈیا یا ذرائع ابلاغ اپنی قدر و قیمت کھورہے ہیں‘ کھوئے ہوئے وقار اور اعتماد کی بحالی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران الکٹرانک میڈیا نے جس طرح سے جھوٹ اور باطل طاقتوں کو تقویت پہنچانے کے لئے جس طرح سے پروپگنڈہ کیا اس دوران ایک قومی چینل ان کے درمیان سچ کا ترجمان کے طور پر اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کے ایڈیٹر کو مختلف سطحوں پر مسائل، مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بلکہ فرقہ پرست کیبل آپریٹرز نے تو اس چینل کو بلیک آؤٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ اس کے باوجود سچائی کو چھپایا نہیں جاسکتا۔ ہوا اور تیز بہتے پانی کو روکنے کی کوشش کی جائے تو ان کے لئے نئے راستے نکل آتے ہیں۔ جھوٹ، دغا، فریب، عیاری اور مکاری کے اس دور میں سچ کی اپنی اہمیت ہے… سچائی کی قدر ہے۔ صرف سچ کو بہتر انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سچ کلمۃ الحق ’’جہاد‘‘ ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ سچ کے نام پر کسی کی اہانت، تحقیر و تضحیک کا ہمیں کوئی حق نہیں۔ کہتے ہیں کہ سچ کڑوا ہوتا ہے اور اچھے علاج کے لئے اکثر کڑوی دوائی دی جاتی ہے۔ تاہم کڑواہٹ کو مٹھاس میں بھی بدل کر اسے پیش کیا جاسکتا ہے۔
’’سچ‘‘ کا مقصد اپنی خود نمائی، خود کو صداقت پسند ظاہر کرنے سے زیادہ کسی کی اصلاح ہے تو مناسب الفاظ شگفتہ لب و لہجہ ضروری ہے۔ جس کے سامنے سچ کہا جارہا ہے اسے بھی تکلیف نہ ہو اور وہ سچ کا قائل ہوجائے۔ یا ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ غیر محسوس طریقہ سے سامنے والا اپنی اصلاح کرلے جیسا کہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے کیا تھا آپ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ایک شخص کے وضو کرنے کا طریقہ سنت کے مطابق نہیں ہے۔ آپ نے اسے روکا ٹوکا نہیں بلکہ اس سے فرمایا کہ اے شخص! میں وضو کرتا ہوں‘ ذرا دیکھنا کہ صحیح طریقہ سے کررہا ہوں یا نہیں۔ اس شخص نے آپ رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے دیکھا۔ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو سنت کے مطابق ہی ہوسکتا ہے۔ انہیں دیکھ کر اس شخص نے اپنی اصلاح کرلی۔
سچ ہمیشہ ناقابل تسخیر رہا ہے۔
سچ بولنے لکھنے والے بھلے ہی ہر اعتبار سے کمزور ہوں، دینی اعتبار سے وہ بہت مضبوط ہوتے ہیں، جھوٹ کسی سے نظر نہیں ملاسکتا۔اور سچ کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر صرف سچ ہی دیکھ سکتا ہے۔
’’سچ‘‘ ایمان کی کسوٹی ہے۔ اس پر ہمیشہ کھرا اترنے کے لئے بہت قربانیاں دینی پڑتی ہیں… رشتے کمزور ہوجاتے ہیں، دوستی دشمنی میں بدل جاتی ہے۔ کبھی منصب اقتدار سے بھی محروم ہونا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود سچ بولنے اور لکھنے والا سب کچھ کھو کر بھی قلبی طمانیت، ذہنی سکون حاصل کرلیتا ہے۔ جھوٹ کے سہارے سب کچھ پاکر بھی انسان خود کو ہر شئے سے محروم محسوس کرتا ہے۔ کبھی کبھی اپنی نظروں سے بھی گرجاتا ہے۔
زندگی مختصر ہے۔ کاتب تقدیر نے جو لکھ دیا وہی ملنے والا ہے‘ تو پھر عارضی خوشیوں کے لئے کیوں جھوٹ بولیں۔ دنیا میں ذلیل اور آخرت میں خوار کیوں ہوں۔۔۔ سچ ہے نا!!!