رشتے ناطے

16/11/2022

اللہ پاک کی بیش بہا نعمتوں میں رشتے ناطے بھی نہایت قیمتی اثاثہ جات ہیں، جو اس رحمن نے اپنے بندوں کو وردان کئے ہیں۔ والدین، بہن بھائی، شریک سفر، اولاد اور دوست احباب زندگی کے سفر کی دلآویز لذتیں ہیں۔
جہاں یہ رشتے مل کر خاندان بناتے ہیں، وہیں سے معاشرے کے پھلنے پھولنے کا آغاز ہو جاتا ھے۔
بہترین معاشرے کی تعمیر میں اچھے خاندانی نظام کو بہت اہمیت حاصل ہے اور اس کے لئے تمام رشتوں کو جوڑ کر رکھنا ازحد اہم ہے۔ یہ رشتے خواہ وہ ہوں جن کے ساتھ ہم پیدا ہوئے ہیں یعنی ماں باپ کے اور رحم کے رشتے جن کے حقوق کے بارے میں ہمیں واضح احکامات دے دئیے گئے ہیں اسکے بعد وہ رشتے آتے ہیں جو انسان خود استوار کرتا ہے۔ انکے بھی اپنے حقوق و فرائض ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر رشتے کی اہمیت کو سمجھا جائے اور ان رشتوں کو خوبصورتی سے نبھایا جائے۔ والدین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہوئے ان میں مثبت رویے پیدا کریں انہیں عفو و در گزر کا سبق دیں جب انسان زندگی میں برداشت کرنا اور نظر انداز کرنا سیکھ لیتا ہے تو بہت سی ایسی پریشانیوں سے بچ جاتا ہے جو صرف ہمارے منفی رویوں کی وجہ سے ہمیں بھگتنی پڑتی ہیں۔ اگر ہم شکایتی طرز فکر کی بجائے شکر گزاری اپنالیں تو نہ صرف یہ ہمارے لئے بہترین ہوگا بلکہ پورے معاشرے میں مثبت تبدیلیاں آئیں گی۔ ہر شخص کو یہ سوچنا چاہئے کہ وہ اپنی ذات سے کس طرح دوسروں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچا سکتا ہے کس طرح وہ اپنے گرد و نواح میں خیر اور بھلائی پھیلا سکتا ہے لیکن ہوتا اکثر اسکے برعکس ہے ہر شخص چاہتا ہے کہ ہر چیز اور بھلائی اس کو ملے خواہ اس کا اپنا کردار و عمل کتنا ہی منفی کیوں نہ ہو لہٰذا ضرورت اس امرکی ہے کہ اگر زندگی کو مثبت اور خوشگوار بنانا ہے تو اپنے اندر کو خوبصورت بنا لیں۔ زندگی خودبخود خوبصورت ہوجائے گی زندگی میں ہر رشتہ خوبصورت ہوتا ہے لہٰذا اس کو خوبصورتی سے نبھانا چاہئے۔

عام طور پر ہمارے معاشرے میں یہی رجحان پایا جاتا ھے لیکن ایک certain age کو پہنچ کر یہ رشتے ہمیں ہر وقت تو دستیاب نہیں ہوتے، والدین بوڑھے ہو چکے ہوتے ہیں یا قضائے الہی سے وفات پا جاتے ہیں۔ بہن بھائی اپنے اپنے گھروں میں اپنی نجی ذمہ داریوں اور پیشہ ورانہ مصروفیات میں مشغول عمل رہتے ہیں۔ اولاد اعلی تعلیم یا روزگار کے لئے بیرون ملک مقیم ہو جاتے ہیں۔ زندگی بھر کی مصروفیت کے بعد اس فراغت کو بھی ہم بہت اچھے اور مثبت طریقے سے انجوائے کر سکتے ہیں۔ اگر آپ میں خداداد صلاحیتیں موجود ہیں تو ان سے بھرپور فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ ویسے سب سے بہترین مصروفیت اللہ کا ذکر ھے۔ یہ قرب الہی کا بہترین ذریعہ ھے۔ اللہ کا ذکر کرنے والے، اس سے لو لگانے والے نہ تو خوفزدہ ہوتے ہیں اور نہ ہی غمگین۔ اللہ پر توکل کرنے والے، اس کی رضا میں راضی رہنے والے اللہ کے بندوں پر رحم کرنے والے، ان کا احساس کرنے والے، کسی رفاہی ادارے کو چلانے والے یا کسی بھی قسم کی نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے اللہ کا قرب پانے والے، اللہ کے دوست اور پسندیدہ بندے ہوتے ہیں۔
اللہ پاک نے انسان کو زمین پر اپنا نائب و خلیفہ اور اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا ھے۔۔۔اسے شعور اور آگہی سے نوازا ھے۔ اب یہ اس کی اپنی ذہنی سوچ اور جسمانی صحت پر منحصر ھے کہ وہ اسے کس سانچے میں ڈھال لیتا ھے یا ڈھالنا چاہتا ھے۔ دیکھا اور سمجھا جائے تو اللہ تعالی نے انسان کو اس کی شخصیت میں مکمل بنایا ھے۔ اللہ تعالی نے اسے یہ صلاحیت بخشی ھے کہ وہ خود اپنی خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لے سکتا ھے، اپنے آپ کو بہتر طور سے groom کر سکتا ھے۔ اپنے ضمیر کی آواز سن سکتا ھے، غرض کہ ہر ممکن طریقے سے اپنی اصلاح کرتے ہوئے quality life انجوائے کر سکتا ھے۔

نوٹ: اس کالم میں دو قسم کے موضوع مختصرا” بیان کئے گئے ہیں۔ ایک بچپن اور جوانی میں رشتے ناطے کی اہمیت اور دوسرا جب انسان فارغ البال ہو تو مثبت طریقوں سے اپنی اور دوسروں کی زندگی کو خوشگوار اور پر سکون ، ایک خوبصورت مصروفیت کے ساتھ گزار سکتا ھے۔
اپنے قارئین کرام سے گزارش ھے کہ پڑھنے کے بعد اپنی قیمتی رائے کا اظہار ضرور کریں کہ آپ اس مضمون سے متفق ہیں۔