اس قوم میں ھے شوخی اندیشہ خطرناک
21/10/2022
Halloween, a celebration of kufer n shirk
اس قوم میں ھے شوخی اندیشہ خطرناک
جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد
(علامہ محمد اقبال)
اکتیس اکتوبر کو منایا جانے والا مغربی تہوار ہالووین اب آہستہ آہستہ مشرقی ممالک میں بھی منایا جانے لگا ہے ۔ہالووین تہوار کی جڑیں ہمیں یورپ میں نظر آتی ہیں ۔یہ تہوار قدیم مذہب سیلٹ کے ماننے والے صدیوں سے مناتے آۓ ہیں ۔اس مذہب کے ماننے والوں کا یہ عقیدہ ہے کہ دنیا میں انسانوں اور بری ارواح کے درمیان ایک پردہ موجود ہوتا ہے جو انسانوں کو ان بری ارواح سے محفوظ رکھتا ہے ۔مگر موسم گرما کے اختتام پر یہ پردہ بہت باریک ہوجاتا ہے. یورپی اور مغربی ممالک کی دیکھا دیکھی یہ تہوار اب دنیا کے کافی ممالک میں بڑے شوق سے منانے کا رواج عام ہوتا جارہا ھے۔ کافروں اور غیر مسلم قوموں کے علاوہ اسلامی ریاستیں بھی انہی اندھی تقلید کو اپنانے میں پیچھے نہیں رہیں۔ آپ ایشیائی ممالک کی بات چھوڑیں۔۔۔ جن میں پاکستان بھی شامل ھے، (ان پر تو جیسے لازم ھے اپنے عقائد کو پس پشت رکھ کر ۔۔۔باہر کیا ہو رہا ھے۔۔۔اس کا حصہ بننے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔) مشرق وسطی میں عرب کی سرزمین، جو ہمارے مذہب اسلام کی اساس ھے۔۔۔ سعودی دارالحکومت میں لوگ دل دہلا دینے والے ماسک پہن کر گھومنے پھرنے لگے، دراصل ریاض کے تفریحی مقام بولیوارڈ میں ہالووین منایا گیا۔ 29 اور 30 اکتوبر جمعرات اور جمعہ کو سعودیہ کے دارالخلافہ ریاض میں “Halloween weekend”کے دوران بولیوارڈ کو کاسٹیوم پارٹی میں تبدیل کیا گیا، جس میں مہمانوں کو صرف اس شرط پر مفت داخلے کی اجازت تھی کہ وہ ڈراؤنے ملبوسات پہن کر آئیں گے۔
تقریب میں سعودیوں اور رہائشی ڈیزائنرز نے زیادہ سے زیادہ خوف ناک نظر آنے والے تخلیقی ڈیزائنز کی نمائش کی، اس کا مقصد تفریح، سنسنی اور جوش سے بھرا ہوا ماحول بنانا تھا، لوگ مختلف کرداروں کے ملبوسات کے پیچھے کہانیوں سے بھی روشناس ہوئے۔عبدالرحمان نامی شخص نے شمالی امریکا کے افسانوی کردار وینڈیگو کا بھیس بدلا تھا، یہ کردار اپنی بھوک مٹانے کے لیے انسانوں کا گوشت کھاتا تھا، عبدالرحمان پہلی مرتبہ ہالووین منا رہے تھے۔
شریک افراد کے مطابق یہ تقریب تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے ایک اچھا موقع تھا، انھوں نے کہا کہ تقریب میں شرکت سے نہ صرف وہ لطف اندوز ہوئے بلکہ ان کا ذہنی دباؤ بھی کم ہوا۔اس تقریب میں آتش بازی کا بھی مظاہرہ ہوا، تقریب میں ایسا بہت کچھ دیکھنے کو ملا جس سے خوف ٹپکتا تھا، جب کہ خوف ناک آوازوں کی گونج اس میں مزید اضافہ کر رہی تھی۔
یاد رہے کہ اسی طرح کی ایک تقریب کا انعقاد مارچ میں بولیوارڈ ریاض سٹی اور ونٹر ونڈر لینڈ میں بھی ہوا تھا۔ اگرچہ خلیج میں بہ طور تہوار ہالووین کو مسترد کیا گیا ہے، تاہم اس تقریب کے شرکا نے اس موقع کو بے ضرر تفریح کی ایک شکل قرار دیا۔
ہالووین کی موجودہ رسم اسی سوچ کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ ایسے تہوار منانا اسلام میں جائز نہیں بلکہ غیرمسلموں کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے حرام ہے۔
شرعی نقطہ نظر:
ایسے تمام کام اور رسوم و رواج جو کسی خاص تہذیب، مذہب یا نظریے سے جنم لیتے ہوں اور ان کی پہچان سمجھے جاتے ہوں، ان کو بطور تہوار منانا اہلِ اسلام کے لیے قطعاجائز نہیں۔ کیونکہ پیغمبرِ اسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: من تشبہ بقوم فھو منہم
’’جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔‘‘(ابوداؤد)
کیا بطور مسلمان ہم یہ سب کر سکتے ہیں۔۔۔؟
ہرگز ہرگز ہرگز نہیں۔اگر آپ توحید کو سمجھتے ہیں تو نہ صرف اس شیطانیت کا بائیکاٹ کریں بلکہ اسکی بھرپور مخالفت کریں۔
کیا ہم نہیں دیکھتے اب یہ تہوار شہروں میں بھی منایا جاتا ہے۔۔۔۔؟
کیا آپ خود شیاطین کو اپنے گھر اور بچوں کی طرف راغب نہیں کر رہے۔۔۔؟
آپ یہ تہوار منا کر خود اپنے گھر اور بچوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔یہ سب کفر شرک ہے اور مسلمان اس سب گندگی سے دور ہی نہیں رہتا اس گندگی کو ختم کرتا ہے۔
لوگوں کو آگاہی دیں۔یہ معمولی گناہ نہیں۔ایک مسلمان کو ایمان کیسے گوارہ کر سکتا ہے کہ وہ شیطان کے مختلف روپ دھار کر لوگوں میں خوف و ہراس، انتشار اور تذبذب کی کیفیت پیدا کر کے ماحول کو پراگندہ کر دے۔
کاش کہ ہمارے تدریسی ادارے اور سکول میں ان تمام لغویات کا بائیکاٹ کریں اور بچوں کو نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ انبیاء کرام کی زندگی کے واقعات کے بارے میں بتایا جائے اور عملی زندگی میں ان پر عمل کرنے کی ہدایت کی جائے۔
نوٹ: میں بذات خود جدت پسند ہوں، لیکن ہر اس بات یا عمل سے قطعا” مطابقت نہیں رکھتی جو شریعت کے منافی ہو۔ اللہ پاک ہمیں ہمیشہ راہ ہدایت پہ رکھیں اور ہم اپنے اسلاف کے لئے صدقہ جاریہ بنیں۔ آمین۔