موجودہ ملکی انتشار اور بے سکونی
20/10/2022
حسب معمول ارادہ تو کچھ علمی یا ادبی خیالات قرطاس ابید پر منتقل کرنے کا ہی تھا، لیکن موجودہ ملکی انتشار اور بے سکونی کی فضا نے ہر خاص و عام کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ھے۔ ہر شعبہ ہائے زندگی میں یہی موضوع سب سے زیادہ زیر بحث ھے۔ سیاست اور اس کی اداؤں کو دیکھتے زمانے گزر گئے۔ ہم بھی وطن عزیز کے لئے اپنے دل میں قائداعظم ثانی کی خواہش کو شرمندہ تعبیر ہوتے دیکھنا چاہتے رہے، لیکن افسوس کہ خواب آنکھوں میں ہی سجے رہے۔ آج ایک آیا۔۔۔کل دوسرا۔۔۔بس یہی ریت چل نکلی، حق اور سچ کے لئے کسی نے آواز اٹھائی تو اسے تلف کرنے میں چنداں دیر نہ لگی۔ قوم، معاشرہ، سماج الغرض کہ سیاست، صحافت، ثقافت، تجارت، کھیل، قانون سب کے سب تباہی و تنزلی کی منہ بولتی تصاویر ہیں۔
مرزا غالب کیا خوب فرماتے ہیں:
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
بات پر واں زبان کٹتی ہے
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی
شرع و آئین پر مدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی
چال جیسے کڑی کماں کا تیر
دل میں ایسے کہ جا کرے کوئی
نہ سنو گر برا کہے کوئی
نہ کہو گر برا کرے کوئی
روک لو گر غلط چلے کوئی
بخش دو گر خطا کرے کوئی
کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی
جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
ماضی قریب کی کوئی خوشگوار یاد موجود نہ ہو تو ماضی بعید سہارا دیتا ہے۔ جہاں آپ کوئی اچھی بات کریں لاشعوری طور پر سلسلہ ماضی سے جڑ جاتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ صورتحال عکاس ہے کہ ہمارا حال تہی دامن ہے، اگر کچھ بچی کھچی خوشگوار یادیں ہیں تو انکا تعلق ماضی بعید سے ہے۔ قائد اعظم کے بعد ملکی سیاست، سیاسی و مذھبی قائدین، فوج اور نوکر شاہی کے گھر کی لونڈی بن گئی اور نتیجہ یہ ہے کہ نسل در نسل اقتدار پر کرپشن کی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ آج سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی پاکستان کا مستقبل غیر یقینی حالات و خدشات سے دوچار ہو تو اس میں قصور میرا اور آپ کا بھی ہے، باقی رہی بات قائدین کی۔۔۔ تو حضور ان قائدین کو بھی ہم اور آپ ہی بونے سے دیو بناتے ہیں۔ جو قائدین ستر سال بعد پینے کا صاف پانی فراہم نہ کر پائیں، تعلیم و صحت کی سہولیات ناپید ہوں، شہریوں کی حفاظت کی ضمانت نہ دے سکیں، انصاف کی فراہمی سوالیہ نشان ہو، ملک میں کوئی مربوط نظام نہ ہو تو یقینی طور پر قیادت کے ساتھ چھوٹے موٹے نہیں بلکہ اہلیت کے بنیادی مسائل ہیں۔ اگر ستر سال بعد انہیں بتانا پڑے کہ مستقبل موٹر وے سے نہیں بلکہ تعلیم سے وابستہ ہوتا ہے، ایسی ترقی جو غریب کو مزید غریب اور امیر کو امیر ترین بنائے معشیت نہیں بلکہ قومی ڈاکہ کہلاتی ہے۔ ٹوٹی سڑکیں، ابلتے گٹر، بڑھتے جرائم، حکام کی من مانیاں کسی اور کے نہیں بلکہ انہی قائدین کے منہ پر طمانچہ ہیں۔
اگر ان قائدین کو یہ بھی بتانا پڑے کہ بنیادی حقوق کوئی خیرات نہیں بلکہ انکی اپنی نا اہلی کے باعث ستر سال سے قرض ہیں۔ خیر قائدین کو تو بہت کچھ اور بھی بتانے کی ضرورت ہے مگر بتانے سے پہلے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ان نام نہاد قائدین کا سارا دم خم، طمطراق، بھرم، عزت، شہرت اور دولت آپ کی مرہون منت ہیں جن سے وہ ووٹ کی بھیک مانگتے ہیں۔ اس سے آگے کچھ کہنا محال، بس آغا شورش کاشمیری کی زبانی سن لیجیئے
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
اس دعا کے ساتھ اپنی بات کو ختم کرتے ہوئے اجازت چاہوں گی۔۔۔اللہ ہمارے ملک و ملت کا نگہبان ہو، ہمارا پیارا ملک دنیا کے نقشے پر تاقیامت بطور ایک آزاد مملکت کے چمکتا دمکتا رہے، ہماری نسلیں اپنے ملک کی آزاد اور خود مختار فضاؤں میں پھولیں پھلیں اور اسلامی قواعد و ضابط کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنے ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے کوشاں رہیں۔ آمین۔