بچپن، جوانی اور بڑھاپا
12/10/2022
انسان کی زندگی کے مختلف ادوار میں اس کی شخصیت بہت سے رنگ بدلتی ھے۔ “بچپن، جوانی اور بڑھاپا”: اور یہی آج کا موضوع بھی ھے اور میرے سبھی دوست احباب اس کا تجربہ بھی رکھتے ہوں گے، اور کچھ اس عمل سے گزر رہے ہوں گے۔ آج اس موضوع کو لے کر اس پر مختصر سی بحث بھی کریں گے اور مجھے امید ھے کہ آپ اپنی رائے کا اظہار بھی ضرور کریں گے۔ ہو سکتا ھے کہ ہماری اس بحث سے ہم اپنی اصلاح بھی کر لیں اور ساتھ ساتھ ہماری نئ نسل کو بھی کچھ سیکھنے کو مل جائے۔
زندگی دھوپ چھاؤں کی مانند ھے۔ ہر بشر چاھے وہ امیر ہو یا غریب، سبھی کی زندگی اچھے اور برے ہر طرح کے رنگوں سے عبارت ھے۔ خوشی غمی، دکھ سکھ، بیماری محتاجی سبھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
آئیے ان ادوار کو بالترتیب سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
1) بچپن:
جب بچہ دنیا میں آتا ھے تو وہ گھر بھر کی آنکھوں کا تارا ہوتا ھے۔ اس کو نہایت شفقت اور محبت سے پالا پوسا جاتا ھے۔ ابتدائی مراحل میں وہ بولنا اور چلنا سیکھتا ھے۔ والدین اور گھر کے بڑے بوڑھے سبھی اس کی حرکات کو خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ بچپن بڑا ہی پیارا اور بے فکری کا زمانہ ہوتا ھے۔ بچہ اپنی ہی دھن میں مست کھیل کود، لاڈ پیار، سیر و تفریح کو انجوائے کرتا ھے اور یہیں سے اس کی پرورش، نشوونما اور تعلیم و تربیت شروع ہو جاتی ھے۔ اسے نظم و ضبط کے تقاضے سکھائے جاتے ہیں، اچھے برے میں تمیز بتائی جاتی ھے۔ گویا کے بچپن ہی سے ہر اچھے کام کی ابتداء کی جاتی ھے۔
2) جوانی:
بچپن کی دہلیز پار کرتے ہی جوانی کا خوبصورت دور شروع ہو جاتا ھے۔ اب بچہ جسمانی طور پر پہلے سے زیادہ مضبوط، توانا، چاک و چوبند اور چوکس ہو جاتا ھے۔ ذہنی طور پر بھی کافی حد تک حوصلہ مند، ذمہ دار اور سمجھدار ہو جاتا ھے۔ اپنے مستقبل کی اچھی اور مضبوط پلاننگ ، اعلی پڑھائی، ذریعہ معاش یعنی کام کاج یا نوکری، شادی خانہ آبادی اور اسی طرح کے دیگر معاملات زندگی کا تانا بانا بننا شروع ہو جاتا ھے۔ یہ زندگی کا دوسرا خوبصورت ترین دور ہوتا ھے۔ بھرپور انرجی، توانائی، محنت کی لگن، کچھ بننے اور آگے بڑھنے کا جذبہ اس کے راستے میں آنے والی کسی بھی مشکل کو ٹھہرنے نہیں دیتا۔ بہتر سے بہترین کی جستجو اس کی ہمت اور determination کو گرمائے رکھتی ھے اور یوں وہ اپنی ساری جوانی ” کام کام اور بس کام” کے نام کر دیتا ھے۔ اور کیا ہی خوب ھے اگر وہ کام کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کی تعمیل اور شکر گزاری بھی کرنے والا ہو۔ اللہ کی عطاوں پر شکر گزار رہنا اور اس کی پاکی بیان کرتے رہنا یہ بھی بچپن میں ہونے والی تربیت کی ہی شکل ھے۔ جوانی کی عبادت کا بہت ثواب ھے۔ جس نے حق حلال کی کمائی کے حصول کے لئے محنت کی اور ساتھ میں عبادت گزاری کی گویا اس نے دنیا و آخرت کی بھلائیاں پا لیں۔
3) بڑھاپا:
ماشاءاللہ اب باری آتی ھے بڑھاپے کی۔ الحمدواللہ یہ بھی باقی ادوار کی طرح اپنی نوعیت کا واحد خوبصورت دور ھے جو ایک ہی بار آتا ھے اور زندگی کی آخری سانس تک ساتھ نبھاتا ھے۔ یہ بھی اللہ کی نعمتوں میں ایک خوبصورت نعمت ھے کہ بندہ اپنی زندگی کی کتاب کے ہر ورق کا بغور مطالعہ کرتا ھے۔ اولاد کے فرائض سے فارغ البال ہونے کے بعد، بہت سا وقت دوسرے معاملات کے لئے مل جاتا ھے۔ جو کام زندگی کی آپادھاپی میں نہ کئے گئے یا کم مواقع میسر آئے، ان کی طرف بھی توجہ مبذول کی جا سکتی ھے۔ روزمرہ معاملات کو ایک سوچے سمجھے plan کو ترتیب دے کر صحت مند اور fit رہا جا سکتا ھے۔ بڑھتی عمر کو روک تو نہیں سکتے لیکن اس کی اہمیت اور فضیلت سے انکار بھی نہیں کر سکتے۔ بڑھاپے کی ایک بڑی خصوصیت یہ ھے کہ یہ انسان کو معتبر بنا دیتا ھے۔ چھوٹے بڑے سبھی عزت کرتے ہیں۔ اپنے بزرگوں کے احترام میں ان کی باتوں کو سنتے اور سمجھتے ہیں۔ یقینا” عمر رسیدہ لوگ ایک مضبوط تجربہ رکھتے ہوئے اپنی زندگی کی اقدار کا نچوڑ اپنی نئی نسلوں میں منتقل کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ اپنی آنکھوں کے سامنے ایک نسل کو پروان چرھتے اور دوسری نسل کو پھلتے پولتے دیکھنا انتہائی خوش قسمتی ھے۔ جوانی میں اللہ کے حضور ماتھا ٹیکنے کی عادت رہی ہو تو بڑھاپے میں سجدوں کی لذت محسوس کی جا سکتی ھے۔ کئی لوگ بڑھاپے کی ضعیفی اور کمزوری کا رونا روتے ہیں، دل میں اندیشے اور گھبراہٹ پالتے ہیں ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
اگر زندگی کو منظم طریقے سے گزارا جائے، متوازن خوراک، regular walk ، اچھی نیند اور یقینا” بڑھاپے کی ساتھی جو کہ تقریبا” ہمارے سبھی بوڑھے اپنے اپنے health issues کے لئے اپنے معالج کی تجویز کردہ ادویات استعمال کرتے رہیں تو یقینا” ایک اچھا اور صحتمند بڑھاپا گزار سکتے ہیں۔ اپنے دلپسند مشاغل جیسے کتابیں پڑھنا، باغبانی کرنا، رشتہداروں اور عزیزوں سے ملنا، سیر و تفریح plan کرنا اور ان کے ساتھ ساتھ کچھ فلاحی کام کرنا، آخرت کی تیاری کرنا۔ یہ سب وہ عوامل ہیں جو انسان کو ذہنی طور پر سرگرم عمل رکھتے ہیں اور بیزاری اور محتاجی سے بچے رہنے میں معاون ہوتے ہیں۔ اللہ کی رضا میں راضی رہنا، اس کی عطاوں پر شکر گزار رہنا اور تکلیف پر صبر کے ساتھ شکر ادا کرتے رہنا ، بیشک یہ اللہ کی نعمتوں میں بڑی نعمت ھے۔ اللہ تعالی ہمارے بزرگوں کو جس میں ہم ( راقم) بھی کسی قدر شامل ہیں آسانی کا بڑھاپا دے، اللہ اپنے سوا کسی کا بھی محتاج نہ کرے۔ اور جتنی زندگی ھے با مقصد اور احسن طریقے سے گزرے۔ جب دنیا سے رخصت ہوں تو اس حال میں کہ اپنے رب سے ملاقات کی خوشی ہو۔ اللہ تعالی ہمیں دنیا و آخرت میں سرخرو فرمائے، آمین یا رب العالمین۔