بچوں کے اغوا اور جنسی زیادتی کے جرائم
5/10/2022
جہاں اور کئی معاشرتی اور سماجی برائیاں ہمیں در پیش ہیں، وہیں بچوں کے اغوا جیسی سنگین وارداتیں بھی زور پکڑ رہی ہیں۔ آئے دن پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ان شہ سرخیوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ بچوں کا اغوا ایک سنگین جرم ھے، کسی ماں کا لخت جگر گم ہو جائے یا
اغوا کر لیا جائے، اس کے رنج اور کرب کی کیا کیفیت ہو گی؟
بچوں کے اغوا اور جنسی تشدد، ان کی فروخت، بچوں کے قتل کی بڑھتی ہوئی وارداتیں، ہم سب کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہیں۔ کئی ایک سوال جنم لیتے ہیں ۔۔۔ بچوں کو اغواء کیوں کیا جاتا ھے ؟ اس گھناؤنے کھیل کے کون مرتکب ہو رہے ہیں؟ ان مافیاز کا مقصد کیا ھے؟ عوام، حکومت اور پولیس کا کیا کردار ھے؟ اور اس کی روک تھام کیسے ممکن ھے؟
سب سے اہم اور بنیادی سوال یہ ھے کہ بچوں کو اغواء کیوں کیا جاتا ھے؟ آئے دن ہم بچوں کے اغوا کی وارداتیں سنتے رہتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ اپنی سمت کھو چکا ھے اور بگاڑ کی آخری سرحدوں کو چھو رہا ھے۔ کتنی افسوسناک لیکن تلخ حقیقت ھے کہ بچوں کو جنسی ہوس کی تسکین کے لئے بھی اغوا کیا جاتا ھے اور بعدازاں راز کو چھپانے کے لئے ان معصوموں کو قتل کر دیا جاتا ھے۔ انسانی تجارت کی غرض سے بھی بچوں کو اغواء کیا جاتا ھے۔ اس کاروبار میں بہت سی طاقتیں اور مافیاز ملوث ہیں۔ جو بچوں کو اغواء کر کے بھیک منگواتے ہیں، ان سے جبری مشقت لی جاتی ھے۔ انہیں تربیت دے کر کسی ملک و قوم کے خلاف بطور ہتھیار بھی استعمال کیا جاتا ھے۔ منشیات اور دیگر اشیاء کی سمگلنگ کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ھے۔
کتنے افسوس کی بات ھے ہم جو ایک مہذب معاشرہ کہلاتے ہیں اب بھی انسانوں کی تجارت ہو رہی ھے۔ دور جدید میں یہ ایک لعنت اور غلامی کی ایک شکل ھے۔ بچے جو ہمارا مستقبل ہیں، ان کو اغواء کیا جا رہا ھے یعنی ہمارا مستقبل اغواء ہو رہا ھے۔
ہماری پولیس اور حکومت اس مسئلے کو حل کرنے میں محو کوشاں ہونے کے باوجود ناکام ھے۔ اور یہ ناکامیاں اور پریشانیاں ہمارے معاشرے کا مقدر بنتی رہیں گی جب تک کہ law n order مضبوط نہ ہو گا۔
امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہا کے دور خلافت میں نہ تو کبھی کوئی بھوکا سویا اور نہ ہی کبھی کسی پر کوئی ظلم و جبر ہی ہوا۔ ایک عورت کی بھیڑ چوری ہو گئ تو اس نے کہا کہ یا تو حضرت عمر خلیفہ نہیں رہے ، یا پھر وہ فوت ہو گئے ہیں۔ اور یہ واقعہ آپ کی وفات کے کچھ دن بعد کا ھے۔
یتیم ہو گیا ھے عدل کا جہاں
زمانہ پھر سے عمر بن خطاب چاہتا ھے
آخر میں سب والدین سے گزارش ھے کہ اپنے بچوں کی نگرانی ہر لحاظ سے حتمی بنائیں۔ ان کے سکول لانے لیجانے کا باقاعدہ و منظم انتظام کریں۔ بچوں کو قاری صاحب کے ساتھ اکیلا نہ بیٹھائیں، ملازم یا ڈرائیور کے ساتھ مارکیٹ اکیلا نہ بھیجیں۔ اپنے طور سے خود محتاط رہیں اور بچوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ اللہ سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، آمین۔