دستور حیات
30/09/2022
مذہب اسلام کے اندر امیر سے امیر اور غریب سے غریب تر انسان نیکی کے حصول کی خاطر ایک ہی درجے میں تسبیح کے دانوں کی مانند لڑی میں پرویا ہوا ہے۔ نیکی کا پہلا سبق ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ‘‘سے شروع ہوتا ہے۔ قرآن حکیم جو ہمارا دستور حیات ہے اس کے ایک ایک لفظ کو پڑھنے اور سمجھنے پر نیکی ملتی ہے۔ نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درودو سلام پڑھنا ،راستے میں پڑی کسی تکلیف دہ چیز کو دور کرنا، کسی پیاسے کو پانی پلانا، بوڑھے یا کسی نابینا کا ہاتھ پکڑکر سڑک پار کروا دینا، بھوکے کو کھانا کھلانا، صدقہ کرنا، کسی ایسے شخص کو جس کے پاس کپڑے نہ ہوں اس کے لیئے لباس کا انتظام کر دینا، یتیم بچے کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر دینا، راہ چلتے کو راستہ دکھا دینا، مریض کی عیادت کرنا، اپنے والدین، اساتذہ، بیوی بچوں، بہن بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا اور زیادہ نہیں تو کسی سے مسکر ا کر بات کر دینا یہ سب اعمال نیکی ہی میں شمار ہوتے ہیں۔ رمضان المبارک کے ماہ میں روزے رکھنا، مسنون اذکار کا صبح و شام پڑھنا بھی نیکی میں شامل ہے اور اس سے درجات بلند ہوتے ہیں۔ چھوٹے سے چھوٹے عمل کو انسانیت کی بھلائی کے لیے بغیر کسی لالچ و نمودو نمائش کے صرف اللہ تعالی سے اجر چاہتے ہوئے کرنا ،نیکی کہلاتا ہے۔اس طرح ہزاروں طریقے موجود ہیں،جن کی بدولت نیکیاں کمائی جا سکتی ہیں۔ اب اگر دیکھا جائے تو یہ چھوٹے چھوٹے کام جو بظاہر ہماری نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے ، اگر ہم ان کاموں کو ہی continuity کے ساتھ جاری رکھیں تو بے شمار نیکیاں روزانہ کمائی جاسکتی ہیں ۔
امام غزالی فرماتے ہیں “میں نے تمام دنیا پر نظر ڈالی ہر شخص کسی نہ کسی چیز سے محبت کرتا ہے مگر اس محبوب چیز کو دنیا میں چھوڑ کر قبر میں اکیلا چلا جاتا ہے میں نے سوچا کہ میں نیکیوں اور اچھے کاموں سے محبت کروں تا کہ یہ قبر میں بھی میرے ساتھ جائیں اور مجھےاکیلا نہ چھوڑیں”۔ اس عظیم قول میں اہل علم و دانش کے لیے گہرائی موجود ہے۔ انسان اس دنیا میں اپنی مرضی کے خلاف آتا ہے اور جب شعور کو پہنچتا ہے تو اسے دنیا کی رونقیں بھلی معلوم ہونے لگتیں ہیں اور وہ اس دنیا فانی کو ہی اپنا مقصد حیات جان لیتا ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔ اس دنیا میں اللہ تعالی نے انسانوں اور جنوں کی تخلیق صرف اور صرف اپنی عباد ت کے لیے کی ہے۔ جب انسان اپنی مرضی کے برعکس رب ذوالجلال کے حکم پر واپس دارلبقاء میں چلا جائے گا تو وہاں پر اس کے اعمال ترازو میں تولے جائیں گے ایسے میں یہی چھوٹی چھوٹی نیکیاں ہی خطاؤں پر بھاری ہو جائیں گی۔ قرآن حکیم کی دوسری سورۃ مبارکہ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 245 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں”ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالی کو اچھا قرض دے پس اللہ تعالی اسے بہت عطا فرمائے گا، جاللہ ہی تنگی اور کشادگی کرتا ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے”۔کتنا مہربان ہے اللہ تعالی کہ سب نعمتیں اور خزانے عطاء کرنے کے بعد پھر قرض مانگتا ہے اور ساتھ وعدہ کرتا ہے کہ اسے دگنا چوگنا کر کے لوٹاؤں گا اور کتنے بدنصیب ہم ہیں کہ اس عالی مرتبت کی راہ میں خرچ کرنے اور نیکیاں کمانے کے بجائے اپنے مال کو محفوظ کرنے میں مشغول ہیں اور دل میں یہ خوف ہے کہ کہیں خرچ کرنے سے مال میں کمی واقع نہ ہو جائے۔ اس حوالے سے رحمت للعلمین صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ مشعل راہ ثابت ہوتا ہے کہ ’’ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفہ میں ایک بکری دی گئی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کو اپنے گھر بھیج دیا اور ام المؤ منین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو حکم دیا کہ وہ اس بکری کا گوشت تقسیم کردیں۔ شام کے وقت جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے اور ام المؤمنینؓ سے دریافت کیاکہ کھانے کے لیے کچھ موجود ہے تو لائیں،ام المومنینؓ نے جواب میں فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی جانب سے بھیجی گئی بکری کے گوشت کو راہ خدا میں تقسیم کر دیا ہے،صرف ایک ران بچی ہے،آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہؓ جو راہ خدا میں خرچ کر دیا وہ باقی رہ گیا اور جو ہم نے کھالیا وہ ختم ہو گیا‘‘۔ اسی طرح حضرت امام زین العابدین علی ابن حسینؓ ابن علیؓ ایک مرتبہ اللہ کی راہ میں دینے والے اپنے مال کو پیار کر رہے تھے،گھر والوں نے حضرت امام زین العابدین علی ابن حسینؓ ابن علیؓ سے دریافت کیا کہ آپ باقی مال و اسباب کو چھوڑ کر صرف اس مال کو پیارکیوں کر رہے ہیں ؟حضرت امام زین العابدین علی ابن حسینؓ ابن علیؓ نے جواب دیا کہ جو مال میں اپنے لیے استعمال کروں گا وہ دنیا میں ہی ختم ہو جائے گا اور اس مال کو پیار اس لیے کر رہا ہوں کیوں کہ اس مال کو اللہ تعالی کے حضورجانا ہے،اور جو مال اللہ کے دربار میں گیا ،وہ مال کتنا خوش قسمت ہے کہ اس نے کبھی ختم نہیں ہونا بلکہ باقی رہنا ہے۔ امام غزالی کا خوبصورت قول “میں نے لوگوں کو دیکھا کہ ان کے پاس کوئی بھی قیمتی چیز ہے تو وہ اس کی خوب حفاظت کرتے ہیں،پھر میں نے اس آیت پر غور کیا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہونے والا ہے اور جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے،چنانچہ اب میں اپنی ہر قیمتی چیز کو اللہ کے حوالے کر دیتا ہوں تاکہ وہ میرے لیے باقی رہے اور میر ے کام آئے” ۔
چند واقعات و حقائق کے حوالہ سے اس بات کی نشاندہی کرنا مقصود تھی کہ آج ہمارے اندر ایسی باتوں کا فقدان عام ہوتا چلا جا رہا ہے اور اس کی جگہ ایسی قباحتوں نے لے لی ہے جس کا انجام سوائے تباہی کے کچھ نہیں۔ جتنا زیادہ ہم اللہ کی راہ میں خرچ کریں گے اتنی زیادہ نیکیاں ملیں گی،جتنی زیادہ نیکیاں ہمارے اعمال نامہ میں شامل ہوں گی اتنی آسائشیں اللہ دنیا و آخرت میں ہمارے لیے پیدا کرے گا۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جو مال ہم راہ خدا میں خرچ کریں ،وہ حلال ہو اور اس کے ساتھ ہمارا خرچ بغیر کسی لالچ ،طمع، ریاکاری، دکھاوے سے پاک ہونا چاہیے۔ نیکی کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ نیکیاں برائیوں سے دور کرتی ہیں،جتنا برائیوں سے دور ہوتے جائیں گے اتنا زیادہ اللہ کا قرب حاصل ہوگا اور قرآن حکیم کے بارہویں سپارے کی سورۃ ھود کی آیت نمبر 114 کے آخری حصہ میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ” یقیناً نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں ۔ یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لیے”۔