18/09/2022

آج میں حسب معمول اپنے فورم کے لئے کچھ لکھنے کا سوچ کر اپنی لکھنے والی میز پر بیٹھی ابھی اسی کشمکش میں تھی کہ کیا لکھا جائے جو پڑھنے والے کی دلچسپی کا ساماں بن سکے، نظریں گھما کر سامنے لگے بک شیلف کو دیکھا، جس کے بالائی حصے میں قرآن پاک کے نسخہ جات کے ساتھ ساتھ حدیث، فقہ، تفسیر قرآن اور سیرت طیبہ پر مبنی ضخیم کتب بالترتیب قرینے سے لگی قلب و نظر کو عقیدت بخش رہی تھیں۔
درمیانی شیلف میں کچھ ملی جلی کتابیں آویزاں ہیں، جو اسلامی تاریخ، خلفائے راشدین کی سوانح حیات، فلسفہ، علامہ اقبال کی شاعری کا مجموعہ اور کچھ ادبی کتابیں بھی میرے ذوق و شوق کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ کتابوں سے میرا تعلق بہت پرانا ھے۔ بچپن ہی سے مجھے نصابی پڑھائی کے ساتھ ساتھ، کھیلوں میں حصہ لینے اور تقاریر کرنے کا بہت شوق رہا ھے۔ فارغ ٹائم میں کچھ نہ کچھ لکھتے رہنا میرا پسندیدہ مشغلہ بن گیا۔ کبھی کوئی نظم یا غزل لکھ لی تو کبھی کوئی مضمون لکھ لیا۔ اور مزے کی بات یہ ھے کہ جو بھی لکھا وہ پہلی نشست میں ہی مکمل کر لیا۔ یوں لکھتے لکھتے ایک تو ہاتھ کی تحریر خوبصورت ہو گئ دوسرا میرے الفاظ کو زباں مل گئ۔ ارے میں تو موضوع کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ آج کیا لکھنا ھے، ایسا لگتا ھے کہ کتاب پر لکھا جانا شروع ہو چکا ھے۔ چلیں یونہی سہی۔۔۔ کتاب پڑھنے کے اس تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔۔۔
کتاب غور و فکر کو پروان چڑھاتی ہے، غور و فکر انسان کو شعور اور آگہی کے خزینے عطا کرتی ھے۔ کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ھے کہ قرآن پاک نے ابتدا ہی میں اپنا تعارف ” الکتاب” کے طور پر کروایا ھے، ہمارا تو پہلا استعارہ ہی ” اقراء” یعنی “پڑھ” ھے۔
تاریخ شاہد ہے کہ جن قوموں نے کتاب سے دوستی رکھی وہ زندگی کے ہر میدان میں ترقی اور عروج کی منازل طے کرتی گئیں۔ جیسے ہی کتاب و علم سے ناطہ ٹوٹا پستی اور ذلت نے گھیر لیا۔ خلفائے راشدین اور اولیائے کرام کتاب کے قدردان رہے۔ خلیجی ، تغلق ، سادات ، لودھی اور مغل علم کے قدر دان رہے۔ ساتویں سے تیرھویں صدی تک بغداد علم و ادب کا گہوارہ رہا۔ غرناطہ ، قرطبہ اور بغداد دنیا کے عظیم تاریخی اور علمی سرمایہ تصور ہوتے رہے۔ سقوط بغداد کے بعد مسلمانوں کے عظیم کتب خانوں کو دریا برد کیا گیا۔ 1857 ء میں جب مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوا تو انگریزوں نے لال قلعے کی شاہی لائبریری سے ہزاروں کتابیں لندن پہنچا دی۔ اغیار نے مسلمانوں کی میراث کتاب کو کبھی جلایا ، کبھی سمندر برد کیا تو کبھی اسے لوٹ لیا۔ آج بھی لندن میں ’’ انڈیا آفس لائبریری‘‘ اور پیرس لائبریری میں مسلمانوں کی ہزاروں کتابیں موجود ہیں۔ اس کربناک صورتحال کا ذکر علامہ محمد اقبال نے کچھ اس طرح سے کیا۔

تجھے آباء سے اپنے نسبت ہو نہیں سکتی

تو گفتار وہ کردار ، توثابت وہ سیارہ

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا

وہ علم کے موتی اور کتابیں اپنے آباء کی

جو یورپ میں دیکھیں تو دل ہوتا ہے سی پارہ

اگر ہم وطن عزیز کی بات کریں تو انتہائی افسوسناک صورتحال سامنے آتی ہے۔ پاکستان میں کتاب سے دوستی رکھنے والوں کو کتابی کیڑا اور خبطی جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ جبکہ ترقی یافتہ قومیں کتاب کے تخلیق کار ، مفکر ، دانشور ، شاعر ، مصنف ، استاد اور ادیبوں کو عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 72 فیصد عوام کتاب سے دوری اور 27فیصد کتب بینی کے شوقین ہونے کا اعتراف کرتے ہیں۔ اسی طرح گیلپ سروے کے مطابق 93 فیصد کتابیں پڑھنے کے دعویدار اور %61 کتابیں نہیں پڑھتے۔ کتاب سے دوری کی بنیادی وجوہات کتاب کی اہمیت اور افادیت سے نا آشنائی ہے۔ پاکستان میں کم شرح خواندگی اس کی بنیادی وجہ ہے۔ پاکستان دشمن عناصر نے عوام کو علم و شعور سے دور رکھا۔ تعلیم پہ کوئی توجہ نہ دی گئی۔ اس کی بنیادی وجہ حکومت کی عدم سرپرستی بھی ہے۔ مقتدر اور حکمران طبقہ کی ترجیحات میں عوام کبھی شامل رہے ہی نہیں۔ غربت ، بے روزگاری ، مہنگائی ، اقتصادی پسماندگی میں عوام اتنا الجھ کر رہ گئی کہ علم و ادب سے دور ہوتی گئی۔ جس سے صارفین کی قوت خرید میں شدید کمی ہوئی۔
کتب بینی سے دوری کی ایک بنیادی وجہ انٹرنیٹ ، ویب سائٹس ، سافٹ ویئرز ، فری ڈائون لوڈنگ ، الیکٹرانک میڈیا ، یوٹیوب ، سرچ اسٹیشن ، گوگل اور وکی پیڈیا وغیرہ کا زیادہ استعمال بھی ہے۔ عوام کی اکثریت ہاتھوں میں کتاب کی بجائے موبائل دیکھنا پسند کرتی ہے۔ جس کہ وجہ سے لوگوں کا رجحان بدل چکا ہے۔ ہمارا ناقص تعلیمی نظام بھی طلباء اور طالبات میں کتب بینی کے شوق کو پروان چڑھانے میں ناکام ہو چکا ہے۔

پاکستان میں لائبریریاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لائبریریوں کی کمی بھی کتب بینی سے دوری کا ایک سبب ہے۔ لائبریوں کے قیام اور فروغ کیلئے حکومتی سطح پر فوری اور سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں زیادہ کتابیں شاعری کی شائع ہوتی ہیں۔ نفسیات ، فلسفے اور سائنس جیسے موضوعات پر بہت کم کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ ان بنیادی وجوہات کو دور کرنے کیلئے حکومتی اور نجی سطح پر فوری اور سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس قوم کو پستی اور ذلت سے نکالنے کا واحد راستہ علم سے محبت میں ہے۔ آج اس قوم کو کتاب سے مضبوط اور سچی دوستی کرنے کی ضرورت ہے۔