اقبال کا نوجوان
29/09/2022
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں ہر انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے۔ اس دنیا میں کوئی بھی بے مقصد پیدا نہیں ہوا۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ مقصد کو سمجھا جائے۔
جنگِ آزادی میں ناکامی کے بعد مسلمان ناامید ہوگئے، وہ اپنا مقصد بھول کر غلامی کی زندگی گزارنے لگے۔ ایک انسان تب تک غلام نہیں بن سکتا جب تک اس کا ذہن غلامی کو قبول نہ کرلے، اور مسلمانانِ ہند کے ذہنوں نے غلامی قبول کرلی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ابتر حال تک پہنچ گئے۔ اقبال ایک دردِ دل سوز، دور اندیش اور فکرِ قومیت رکھنے والی شخصیت تھے۔ جب وہ مسلم نوجوانوں کو غفلت کی نیند میں سوئے ہوئے دیکھتے تو ان کے مستقبل کیلئے پریشانی میں مبتلا ہوجاتے۔ انہیں یاد آتا کہ کبھی مسلمان دنیا پر راج کرتے تھے۔ انہی مسلمانوں نے برصغیر پر ایک صدی تک حکومت کی تھی اور آج اس حال میں ہیں کہ اپنے ہی قابل رشک ماضی سے ناآشنا ہیں۔ اپنی نظم ’’خطاب بہ جوانانِ اسلام‘‘ میں وہ جوانوں کو یاد دلاتے ہیں کہ:
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
قلم کی طاقت سوئے ہوئے ذہنوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ اقبال نے بھی قلم کو اٹھایا اور اس کے ذریعے مسلم جوانوں کو جگایا۔ وہ ان جوانوں کے ذہنوں کو آگہی سے منور کرنا چاہتے تھے۔
نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ وہ اس سرمایہ کو ضائع ہوتے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ان کے اشعار نوجوانوں کی اصلاح اور شعور کی بیداری کے لئے تھے۔ کیونکہ جب تک کسی قوم کو جگایا نہ جائے وہ کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتی۔ اور سب سے پہلی بات لوگوں میں شعور بیدار کرنا ہوتا ہے۔ شعور ملنے پر ہی وہ قوم اپنا آئندہ کا نصب العین طے کرتی ہے۔ اقبال ناامید دِلوں میں امید کی رمق پیدا کرنا چاہتے تھے۔ وہ مسلم جوانوں سے بہت پر امید تھے۔ اپنے ایک شعر میں مسلم جوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
نہیں ہے نوامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
اقبال نوجوانوں کو عقاب سے تشبیہ دیا کرتے تھے۔ عقاب ایک ایسا پرندہ ہے جو بلندی پر اپنا مسکن بناتا ہے۔ اپنی تیز نگہی کے باعث وہ بلندی سے ہی اپنا شکار تلاش کرلیتا ہے۔ اقبال عقاب کی ساری خوبیاں اپنے مسلم جوانوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ برصغیر کا مسلم جوان تیز، چست اور اپنے ہدف کو پورا کرنے والا بنے اور اس کا اظہار وہ اپنے اشعار میں کرتے تھے۔
علامہ اقبال بالِ جبرائیل کی نظم ’’ایک نوجوان کے نام‘‘ میں اپنے جوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
تیرے صوفے فرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
امارت کیا، شکوہ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل
نہ زورِ حیدری تجھ میں نہ استغنائے سلمانی ؑ
نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں
کہ پایا میں نے استغنا میں معراج سلمانی!
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہ ہو نومید‘ نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے
امید مردِ مومن ہے‘ خدا کے راز دانوں میں
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے! بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
علامہ اقبا ل کی شاعری کا مسلم جوانوں پر ایسا سحر انگیز اثر ہوا کہ وہ جوش، ولولے، ہمت، حوصلے کے ساتھ الگ ریاست کے مطالبے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور ایسے سرگرم ہوئے کہ الگ وطن حاصل کرکے ہی دم لیا۔ مسلم جوانانِ ہند نے کردکھایا کہ ان میں عقابی روح موجود ہے۔ مگر افسوس کہ اقبا ل نے الگ ریاست کا جو خواب دیکھا، وہ شرمندۂ تعبیر ہوا تو آپؒ حیات نہ تھے۔
علامہ اقبال کی شاعری کسی ایک دور کے جوانوں کے لئے مختص اور محدود نہیں ہے۔ جب بھی مسلم جوان غفلت میں پڑیں گے، اقبال کی شاعری ان کیلئے مشعلِ راہ بنے گی۔ عصرِ حاضر کی روشنی میں اگر ہم دیکھیں تو آجکل کے جوانوں کو وہی عقابی روح بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آج پاکستان کی آبادی کا 60% حصہ جوانوں پر مبنی ہے اور یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا ہمارا یہ سرمایہ صحیح منزل کی طرف گامزن ہے؟ آج کا جوان بھی اقبالؒ کا جوان ہے مگر کیا وہ اقبا ل کاجوان بن کے دکھا رہا ہے؟ یا اس کے تقاضوں کو پورا کرپارہا ہے؟ سوشل میڈیا پہ ہر وقت اَپ ڈیٹ رہنے والا جوان اس تگ و دو میں رہتا ہے کہ اس کی پوسٹ پر Likes کم ہیں یا زیادہ؟ 9 نومبر کو اقبا ل کا شعر فیس بک پر لگا کر وہ سمجھتا ہے کہ اقبا ل کا شاہین ہونے کا فرض نبھا دیا۔ ہمارے جوان کس منزل کی طرف چل پڑے ہیں؟ ہمارے جوانوں کو سوچنا ہوگا کہ کیا زندگی کے مقاصد اتنے ہی محدود رہنے چاہئیں؟ ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ جو جوان کچھ کر دکھانے اور کچھ بننے کا جذبہ رکھتے ہیں انہیں بے روزگاری اور وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔ اگر حکومت ِ وقت اس 60% سرمایہ کے مستقبل کا سنجیدگی سے سوچے تو ممکن ہے ان نوجوانوں کو صحیح منزل تک پہنچنے میں مد دملے۔ اقبا ل نے کہا تھا کہ:
سبق پھر پڑھ صداقت کا‘ عدالت کا‘ شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
افسوس کی بات ہے کہ ہم نے صداقت کا سبق پڑھا نہ عدالت اور شجاعت کا، گر پڑھتے تو قدرت شاید ہم سے دنیا کی امامت کا کام لیتی۔ علامہ اقبال کے اس دعائیہ شعر کے ساتھ آپ سے اجازت چاہوں گی۔۔۔
یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے
( آمین )
٭٭٭
وما ارسلنک الا رحمتہ للعالمین
جب سے یہ کائنات ظہور میں آئی ہے اللّٰہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی، اپنے بندوں کی اصلاح اور انہیں سیدھی راہ پر چلانے کے لئے مختلف ادوار میں کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کو بھیجا۔ نبوت کا جو سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم پر آکے ختم ہوا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللّٰہ عزوجل کے تمام انبیاء مرسلین رحمت تھے مگر رحمت للعالمین نہیں تھے۔ اُنکی نبوت اپنی قوم، اپنے دور اور اپنے زمانے تک محدود تھی جبکہ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت و شفقت ہر عہد، ہر زمانے، ہر قوم اور تمام جہانوں کے لئے ہے۔ سرکارِ دو عالم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو اللّٰہ تعالیٰ نے رحمت للعالمین بنا کر بھیجا۔ جہاں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنا تعارف رب العالمین کروایا ہے وہاں حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو رحمت للعالمین کے لقب سے نوازا۔یہ لقب اور شرف ایسا ہے جو کسی اور کے لئے استعمال نہیں کیا گیا۔
قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین
“اور (اے پیغمبر) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔”
اِس آیتِ کریمہ پر توجہ کی جائے تو معلوم ہوتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صرف عرب کے لئے رحمت بنا کر نہیں بھیجا گیا تھا۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم صرف اُمتِ مسلمہ کے لئے رحمت نہیں، تمام نبیوں، رسولوں اور فرشتوں کے لئے بھی رحمت ہیں۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم تمام چرند پرند، حیوانات و نباتات کے لئے بھی سراپا رحمت بن کر آئے۔ غرض عالم میں جتنی چیزیں ہیں سید المرسلین صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سب کے لئے رحمت ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ جو تمام عالموں کا مالک و مختار ہے اُس نے اِن عالموں کے لئے رحمت کا اہتمام اپنے آخری نبی محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں کر دیا۔
چھٹی صدی عیسوی کا زمانہ جو بعثت نبوی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل کا زمانہ ہے اُس زمانے میں نہ صرف سر زمین عرب بلکہ پوری دنیا جہالت و گمراہی کا شکار تھی۔ پورا معاشرہ پستیوں کی گہری دلدل میں ڈوبا ہوا تھا۔ ذات پات کا ایسا خوفناک نظام رائج تھا کہ انسانیت پناہ مانگتی تھی۔
حیوان تو حیوان آپس میں انسانوں کے ساتھ بھی جانوروں سے بدتر سلوک کیا جاتا تھا۔ انسان انسان کا دشمن اور بھائی بھائی کے لہو کا پیاسا تھا۔ یتیموں کا مال ہڑپ کر لیا جاتا تھا اور بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ کفر و شرک، ظلم و بربریت، قتل و غارت، چوری، ڈاکہ زنی، شراب نوشی نیز ہر قسم کا گناہ عام تھا۔ ان سب حالات اور گھٹا ٹوپ اندھیرے کو دور کرنے کے لئے عرب کی سر زمین سے وہ آفتابِ ہدایت طلوع ہوا، جسکی چکا چوند کر دینے والی روشنی نے جہالت کی تمام تاریکیوں کو ختم کر دیا۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کی تلقین فرمائی۔ جس معاشرے میں غلام اور عورت کی کوئی عزت نہیں تھی آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس معاشرے میں غلاموں کو بھی عزت دلوائی عورت کو بحیثیت ماں، بہن، بیٹی، بیوی ہر روپ میں بلند مقام بخشا۔ اللّٰہ تعالیٰ کے تمام احکامات کی صرف تبلیغ نہیں کی بلکہ اپنی زندگی میں عملی طور پہ کر کے بھی دکھایا۔ وہ معاشرہ جو اپنے افعال و اعمال اور اخلاق و کردار کے لحاظ سے حیوانوں سے بھی بدتر تھا آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن سے وابستہ ہو کر فرشتوں سے بھی افضل گردانا گیا۔ الغرض تاریخِ انسانی میں حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ ایک ایسا اعلیٰ و ارفع مقام رکھتی ہے جسکی کوئی مثال نہیں۔
وہ دانائے سبل ختمُ الرسل مولائے کُل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا
نگاہِ عشق ومستی میں وہی اول، وہی آخر
وہی قرآں،وہی فرقان، وہی یٰسین، وہی طہٰ
[ ] آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم محسنِ انسانیت ہیں، انسان کامل ہیں اور ہر لحاظ سے قابلِ تقلید ہیں۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی قیامت تک کے انسانوں کے لئے بہترین نمونہ ہے۔ بطور مسلمان ہمیں ہر وقت اللّٰہ کریم کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے کہ اُس نے ہمیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا اُمتی بنایا۔ جو شخص دنیا میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے گا اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و پیروی کرے گا اُسے دونوں جہانوں میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت سے حصہ ملے گا۔ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم سیرتِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا مطالعہ کریں اور اپنی زندگی کے ہر پہلو میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوں۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنائیں تا کہ ہماری دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں۔ آمین۔