میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلمان میں اسی لیے نمازی

05/09/2022

انسان کی زندگی کا بنیادی مقصد عبادت الٰہی ہے اور عبادت کا لفظ جامع ہے جس میں انسان کے تمام ظاہری و باطنی امور داخل ہیں عبادت ایک ایسا جامع لفظ ہے اس کے اندر وہ تمام ظاہری و باطنی اقوال و افعال داخل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں اور اس کی خوشنودی کا باعث ہیں مثلاً: نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، راست گوئی، امانت داری، اطاعت والدین، ایفائے عہد، امربالمعروف، نہی عن المنکر، جہاد فی سبیل اللہ، پڑوسیوں، مسکینوں اور ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک، جانوروں کے ساتھ اچھا برتاؤ، دعاء، ذکر الٰہی، تلاوت قرآن اوراس قسم کے تمام اعمال صالحہ عبادات کے اجزاء ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول کی محبت، رحمت خداوندی کی امیدوار اور عذاب الٰہی کا خوف، خشیت، انابت، اخلاص، صبر و شکر، توکل اور تسلیم و رضا وغیرہ ساری اچھی صفات عبادات میں شامل ہیں۔

اللہ تعالی انسان کے اس دنیا میں آنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انسان کو اپنی عبادت و بندگی کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ لیکن اگر ہم روز مرہ کے امور پر نظر دوڑائیں تو عبادت کے معاملہ میں ہمارا دینی تصور اس قدر محدود ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ عبادت کا مطلب صرف نماز، روزہ، حج اور زکٰوۃ سمجھتے ہیں۔ عبادت ایک ایسا جامع لفظ ہے اس کے اندر وہ تمام ظاہری و باطنی اقوال و افعال داخل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں اور اس کی خوشنودی کا باعث ہیں اور چنانچہ اس کو اللہ رب العزت نے انسان کی زندگی کا مقصد قرار دیا۔
ارشاد فرمایا:الَّذِینَ یَذْکُرُونَ اللّهَ قِیَامًا وَقُعُودًا وَعَلَی جُنُوبِهِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.
(آل عمران، 3: 191)
وہ جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں (وہ بے ساختہ پکار اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے رب ! تو نے یہ (سب کچھ) بے کار اور (بے مقصد) پیدا نہیں کیا۔

بامقصد زندگی گزارنے والا انسان ایک ایسے مسافر کی طرح ہوتا ہے جس کو اپنی منزل کا مکمل ادراک و شعور ہوتا ہے۔ اگرچہ راستے میں اس مسافر کو کئی دلفریب مناظر، خوشنما اقامت گاہیں اورٹھنڈے سائے اپنی طرف کھینچتے ہیں مگر وہ ان کو نظر انداز کرتا ہوا منزل کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یعنی دنیا کی رنگینیاں و رعنائیاں انسان کو اپنی طرف نہیں کھینچ سکتیں اگر انسان کے سامنے اس کے مقاصد حیات واضح و روشن ہوں۔

جب رضائے الہی مقصد حیات بن کر انسان کی پوری زندگی پر محیط ہوجائے تو انسان اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، سونا جاگنا، چلنا پھرنا، الغرض سارا کاروبار حیات ہی عبادت اور بندگی قرار پاتا ہے۔ اس کا ایک ایک سانس اور ایک ایک لمحہ عبادت میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ حیات انسانی کی ہر حرکت و سکون سراسر عبادت و بندگی میں بدل جاتی ہے۔

نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا

إن الله تعالی یقول یا ابن آدم تفرغ لعبادتی أملأ صدرک غنی وأسد فقرک وإلا تفعل ملأت یدیک شغلا ولم أسد فقرک.

(مسند أحمد: ج 2، ص358)

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:اے انسان!تو میری عبادت کے لئے فارغ ہو جا میں تیرا سینہ غنا سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی کا دروازہ بند کر دوں گا اور اگر تو ایسانہیں کرے گا تو میں تیرے دونوں ہاتھ مصروفیات سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی کا دروازہ بند نہیں کروں گا۔

یعنی اگر بندہ مومن اللہ رب العزت کی عبادت اور اس کی مخلوق کی خدمت میں خود کو مصروف کر لے تو اس کی ضروریات زندگی کو پورا کرنا اللہ اس کے لیے آسان فرما دیتا ہے اور انسان کو تنگی و محتاجی سے نجات مل جاتی ہے۔

احادیث کریمہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی ساری زندگی اللہ رب العزت کے احکام کی بجا آوری میں صرف فرمائی اور ہمیں بھی اسی طرز حیات کی تعلیم عطا فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صحابہ کرام ؓ کو حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کا شعور عطا فرمایا۔ اللہ کے احکام و عبادات میں حقوق اللہ سب شامل ہیں اور دوسرے انسانوں کے ساتھ شریعت کی تعلیمات کے مطابق معاملہ و برتاؤ کرنا حقوق العباد کے ضمن میں ہے۔ لہذا خدمت خلق اور دوسرے کے ساتھ ہمدردی، تعاون، بھلائی اور خیر کے کام کرنا بھی تصور عبادت میں شامل ہے۔ جب بندہ دوسروں پر رحم کرتا ہے تو اللہ کی رحمت جوش میں آجاتی ہے جیساکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا :

“الرَّاحِمُونَ یَرْحَمُهُمُ الرَّحْمَنُ، ارْحَمُوا مَنْ فِی الْأَرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَنْ فِی السَّمَاءِ. (سنن ترمذی)

رحم کرنے والوں پر رحمن رحم کرتا ہے، تم لوگ زمین والوں پر رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کرے گا۔

سیدنا جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

من لا یرحم لا یرحم، ومن لایغفر لایغفر له، ومن لایتب لایتب علیه. (مسلم)

جو ( مخلوق پر) رحم نہیں کرتا، ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے) اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ جو ( مخلوق کو) معاف نہیں کرتا، ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے) اس کی بخشش نہیں ہوتی اور جو (اللہ کی طرف) توبہ نہیں کرتا، اسے (اس کی طرف سے) معاف نہیں کیا جاتا۔
اللہ رب العزت ہم سب کو اپنی زندگی اللہ کے بتائے ہوئے مقصد کے مطابق گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا الہی آمین۔