قیامت
07/05/2025
ظلم کی رات میں جب چیخ نہ سن سکا کوئی،
مظلوم کی آہ بھی دب گئی شور میں کہیں۔
خون میں نہائی زمین، اشکوں سے نم ہوا فلک،
یہ منظر بھی کیا کم ہے کسی قیامت سے؟
زلزلے نے ہلا دی بنیادیں زندگی کی،
آبادیاں مٹی میں مل گئیں پل بھر میں۔
بچوں کے کھلونے، ماؤں کی دعائیں،
سب دفن ہو گئے، زمین کی ہچکیوں تلے۔
طوفان آیا، سیلاب بہا لے گیا
وہ خواب جو صدیوں میں بنے تھے،
کتنے چراغ ایک لمحے میں بجھ گئے،
کتنے بدن ماں کی گود میں ہی سرد ہو گئے۔
یہ ضروری تو نہیں کہ صور ہی پھونکا جائے،
جہاں دل ٹوٹیں، وہاں قیامت برپا ہو جاتی ہے۔
جب انسان انسان کو ہی روند ڈالے،
تو کیا وہ لمحہ قیامت سے کم ہوتا ہے؟
اور جب بے وفائی کا خنجر چلا،
کسی کے اعتبار کے سینے میں،
تو جان لو، وہ بھی قیامت ہی ہے،
بس آواز نہیں ہوتی، چیخیں اندر مرتی ہیں۔
ہر روز، ہر لمحہ، کوئی نہ کوئی قیامت ہے،
بس آنکھ ہو تو دیکھی جا سکتی ہے،
دل ہو تو محسوس ہو سکتی ہے،
ورنہ سب کچھ معمول کا حصہ لگتا ہے۔
زہرا !!!