مدتوں ساتھ رہنے والے میاں بیوی میں سے اگر شوہر بیوی کو دھوکہ دے کر دوسری شادی کو خفیہ رکھے تو کیا اسلام میں اس کی اجازت ہے .
03/05/2025
مدتوں ساتھ رہنے والے میاں بیوی میں سے اگر شوہر بیوی کو دھوکہ دے کر دوسری شادی کو خفیہ رکھے تو کیا اسلام میں اس کی اجازت ہے .
ازدواجی زندگی، اعتماد، محبت، اور باہمی احترام کی بنیاد پر قائم کی جاتی ہے۔ جب ایک جوڑا برسوں تک ساتھ رہتا ہے، دکھ سکھ، بیماری و صحت، فقر و دولت کا ہر پہلو اکٹھے جھیلتا ہے، تو ان کے رشتے میں ایک گہری وابستگی اور جذباتی ہم آہنگی پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر ایسی رفاقت کے بعد شوہر اپنی بیوی کو اعتماد میں لیے بغیر، یا کسی معقول اور شفاف وجہ کے بغیر، دھوکہ دہی سے دوسری شادی کر لے، تو یہ نہ صرف اخلاقی پستی کی علامت ہے بلکہ ایک مضبوط رشتے کی بنیاد کو بھی ہلا دیتا ہے۔
اسلام نے مرد کو ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دی ہے، لیکن اس کے ساتھ سخت شرائط اور انصاف کا تقاضا بھی رکھا ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا: “اگر تم عدل نہ کر سکو تو ایک ہی کافی ہے۔” (النساء: 3)۔ گویا اجازت ہے، لیکن ترجیح عدل اور انصاف کو دی گئی ہے۔ شوہر کا اپنی بیوی کو دھوکہ دینا، دوسری عورت سے خفیہ تعلقات رکھنا یا شادی کرنا، نہ صرف شریعت کے عدل کے تصور کے خلاف ہے بلکہ اس سے پہلی بیوی کی عزت نفس، اعتماد اور جذبات کو شدید ٹھیس پہنچتی ہے۔
ایسی صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا فریق عورت ہوتی ہے۔ وہ جس نے برسوں گھر کو سنوارا، بچوں کی پرورش کی، شوہر کی خدمت کی، اور اس کے ساتھ ہر مشکل وقت میں کھڑی رہی، اچانک خود کو نظر انداز اور غیر اہم محسوس کرنے لگتی ہے۔ جذباتی صدمہ، ذہنی دباؤ، معاشرتی تضحیک، اور مالی عدم تحفظ اس کے مسائل کو بڑھا دیتے ہیں۔ بہت سی عورتیں خاموشی سے یہ صدمہ سہہ جاتی ہیں، کچھ احتجاج کرتی ہیں، اور بعض اوقات رشتے مکمل طور پر ٹوٹ جاتے ہیں۔
ایسی صورت حال کی جڑ اکثر بےاعتمادی، کمیونیکیشن کی کمی، یا معاشرتی دباؤ میں پناہ لینے کی روش ہوتی ہے۔ شوہر اگر اپنے جذبات، مسائل یا وجوہات کھل کر بیوی سے بیان کرے، تو شاید کسی بہتر حل تک پہنچا جا سکتا ہے۔ لیکن دھوکہ دینا ایک بزدلانہ عمل ہے جو صرف وقتی خواہشات کی تسکین کے لیے کیا جاتا ہے، جس کے نتائج دیرپا اور تباہ کن ہوتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں مرد و عورت کے تعلقات کو صرف شرعی اجازت کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانی اقدار، انصاف، اور باہمی اعتماد کی روشنی میں پرکھا جائے۔ دوسری شادی سے پہلے مرد کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ اس کے اس قدم سے ایک انسان کا دل ٹوٹے گا، اور ایک گھر، جو برسوں کی محنت سے بنا، بکھر بھی سکتا ہے۔
خاندانی اثرات اور بچوں پر نفسیاتی صدمہ
جب ایک شوہر برسوں کی ازدواجی رفاقت کے بعد بیوی کو دھوکہ دے کر دوسری شادی کرتا ہے، تو اس کے اثرات صرف بیوی تک محدود نہیں رہتے، بلکہ خاندان کے دوسرے افراد، خاص طور پر شادی شدہ یا بالغ بچے، والدین، بہن بھائی، اور دیگر قریبی رشتہ دار بھی اس سے گہرے طور پر متاثر ہوتے ہیں۔
بچے، خاص طور پر اگر وہ بڑے ہو چکے ہوں، اپنے ماں باپ کو ایک مثالی جوڑا سمجھ کر پروان چڑھتے ہیں۔ وہ ان کی محبت، وفاداری اور قربانیوں کو زندگی کے لیے ایک نمونہ مانتے ہیں۔ جب انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ والد نے ماں کے ساتھ دھوکہ کیا ہے، تو ان کے ذہن میں شدید الجھن اور مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ باپ کی عزت جو برسوں میں بنی ہوتی ہے، ایک لمحے میں ٹوٹنے لگتی ہے۔ بچے ماں کے دکھ کو محسوس کرتے ہیں، ان کے آنسو دیکھتے ہیں، اور اکثر خود کو بےبس پاتے ہیں۔ یہ کیفیت ان کے نفسیاتی توازن کو متاثر کر سکتی ہے، اور بعض صورتوں میں ان کے اپنے ازدواجی تعلقات پر بھی منفی اثر ڈال سکتی ہے۔
شادی شدہ بیٹے اور بیٹیاں اکثر اس مسئلے کے درمیان سینڈوچ بن جاتے ہیں۔ ایک طرف وہ اپنے باپ سے جذباتی رشتہ رکھتے ہیں، دوسری طرف ماں کے دکھ کو برداشت نہیں کر سکتے۔ بعض اوقات انہیں اپنی سسرال یا شریکِ حیات کے سامنے شرمندگی بھی محسوس ہوتی ہے، خاص طور پر اگر واقعہ معاشرتی سطح پر مشہور ہو جائے۔
قریبی رشتہ دار، جو برسوں سے اس جوڑے کو ایک مثالی خاندان کے طور پر جانتے تھے، اچانک حیرت، دکھ اور غصے میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ خاندان میں کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے، بعض رشتہ دار فریق بن جاتے ہیں، اور رشتے ٹوٹنے لگتے ہیں۔ نہ صرف افراد بلکہ پورا خاندانی نظام بے یقینی کا شکار ہو جاتا ہے۔
ایسی صورتحال میں اکثر بیوی معاشی، سماجی اور جذباتی لحاظ سے خود کو تنہا محسوس کرتی ہے، اور اگر خاندان متحد ہو کر اس کا ساتھ نہ دے، تو یہ تنہائی اس کے لیے شدید ذہنی اذیت کا باعث بن سکتی ہے۔
نتیجہ:
شوہر کا اپنی بیوی کو دھوکہ دے کر دوسری شادی کرنا صرف ایک ذاتی فیصلہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ پورے خاندان پر ایک نفسیاتی، اخلاقی اور سماجی زخم چھوڑ جاتا ہے۔ اس لیے ایسے فیصلوں سے پہلے، محض ذاتی خواہشات کو نہیں بلکہ ان کے اجتماعی اثرات کو بھی سنجیدگی سے سمجھنا چاہیے۔