22/03/2025

“کوسوں دور نکل گیا پیدل سوار سے”

کسی بھی نیک عمل میں محض رضائے الٰہی حاصل کرنے کا اِرادہ کرنا اِخلاص کہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتے ہیں

“وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ ﳔ حُنَفَآءَ وَ یُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوا الزَّكٰوةَ” ترجمۂ: ’’اور ان لوگوں کو تو یہی حکم ہوا کہ اللہ کی بندگی کریں اور اسی پر عقیدہ رکھتے ہوئے، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں ۔‘‘

اِس آیت مبارکہ میں اِخلاص کے ساتھ شرک و نفاق سے دور رہ کر اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنے اور تمام دینوں کو چھوڑ کر خالص اسلام کے متبع (پیروکار)ہو کر نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔
اخلاص پیدا کرنے کے چند مندرجہ ذیل طریقے؛

 اپنی نیت درست کیجیے:‏

اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے،جب تک نیت خالص نہ ہوگی عمل میں اِخلاص پیدا نہیں ہوگا کیونکہ نیت کے خالص ہونے کا نام ہی تو اِخلاص ہے۔ بعض اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام فرماتے ہیں:’’اپنے اَعمال میں نیت کو خالص کرلو، تمہیں تھوڑا عمل بھی کفایت کرے گا۔‘‘

 دُنیوی اَغراض کو دُور کیجئے:‏
ایسی دُنیوی اَغراض جن سے مقصود آخرت کی تیاری ومُعاوَنت نہ ہو اگر ہر عمل سے اُن کو دُور کردیا جائے اور صرف رِضائے اِلٰہی پیش نظر ہو تو اَعمال میں رِیاکاری یعنی دِکھاوے کے اِمکانات کافی کم ہوجاتے ہیں۔

البتہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کا عسرت و تنگی کے ایام میں قرآنی سورتیں و وظائف وغیرہ اس نیت سے پڑھنا کہ اللہ تَعَالٰی انہیں قناعت عطا کرے اور اتنی مقدار میں روزی عطا کرے جس سے عبادتِ الٰہی بجا لا سکیں اور درس وتدریس وغیرہ کی قوت بحال رہے تو اِس طرح کا اِرادہ نیک اِرادہ ہے دنیا کا اِرادہ نہیں۔

 اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے رہیے:‏

 کیونکہ اَعمال وہی قبول ہوں گے جو ریاکاری سے بچتے ہوئے اخلاص کے ساتھ کیے ہوں گے اور اعمال کو ریاکاری جیسی موذی بیماری سے بچانے کا ایک بہت مفید حل یہ ہے کہ بندہ خود کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈراتا رہے کہ جس قدر خوفِ خدا نصیب ہوگا اتنا ہی عمل میں ریاکاری سے بچے گا اور اخلاص کی دولت نصیب ہوگی۔

 :نفسانی خواہشات کو ختم کیجیے:

 اِخلاص میں بہت بڑی رکاوٹ نفسانی خواہشات ہیں کیوں کہ ہر عمل پر چند تعریفی کلمات سن کر نفس بے حد سکون محسوس کرتا ہے اور یہی سکون نفس کو ریاکاری پر اُبھارتا ہے جو اِخلاص کی دشمن ہے اور یوں اُخروی فائدے کے لیے کیا جانے والا عمل نقصان کا سبب بن جاتا ہے۔ لہٰذا نفسانی خواہشات پر قابو پائیے اور اَعمال میں اِخلاص حاصل کیجئے۔

 خلوت و جلوت میں یکساں عمل کیجیے:‏
نفس لوگوں کے سامنے تو مشقت سے بھرپور عبادت کرنے پر رضامند ہوجاتا ہے کیوں کہ اِس طرح اُسے شہرت، تعریف اور واہ واہ جیسے میٹھے زہر ملتے ہیں، لیکن تنہائی میں رِضائے الٰہی کے لیے خشوع و خضوع کے ساتھ دو رکعت پڑھنا اُس کے نفس پر نہایت گراں ہے۔خلوت و جلوت کا یہ تضاد بندے کے عمل سے اِخلاص کو ختم کردیتا ہے۔ لہٰذا اپنے اَعمال میں اخلاص پیدا کرنے کے لیے خلوت وجلوت دونوں میں رضائے الٰہی کی نیت سے خشوع وخضوع کے ساتھ نیک اَعمال بجا لائیے۔

 اپنے گناہوں کو یاد رکھیے:‏
عموماً لوگ اپنی نیکیوں کو یاد رکھتے اور گناہوں کو بھول جاتے ہیں جس سے وہ ریاکاری اور خود پسندی جیسی موذی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں جو اِخلاص کی سخت دشمن ہیں، لہٰذا اپنے گناہوں کو یاد رکھیے، نفس کو اُن پر ملامت کرتے رہیے کہ تو فلاں فلاں گناہوں کا مجموعہ ہے پھر کسی نیک عمل پر اِترانے کا کیا معنی؟ یوں کافی حد تک اسے تکبر و ریاکاری سے دور رکھنے میں معاونت ملے گی اور اعمال میں اخلاص پیدا کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔

 اپنی نیکیوں کو چھپائیے:‏
نیکیوں کا چرچا ہی نفس کوریاکاری، حب مدح اور طلب شہرت جیسی باطنی بیماریوں میں مبتلا کردیتا ہے جو اخلاص کو دیمک کی طرح چاٹ لیتی ہیں، بزرگانِ دِین رَحِمَہُمُ اللہ الْمُبِیْن بھی اپنی نیکیوں کو چھپایا کرتے تھے، چنانچہ حضرت سیدنا تمیم داری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی بارگاہ میں عرض کی گئی:’’رات میں آپ کی نماز کی کیفیت کیا ہوتی ہے؟‘‘آپ اس بات سے سخت ناراض ہوئے اور ارشاد فرمایا: ’’اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم! رات کا ایک حصہ چھپ کر نماز پڑھنا مجھے بہت محبوب ہے اس بات سے کہ میں ساری رات نماز ادا کروں، پھر لوگوں میں اسے بیان کرتا پھروں۔‘‘ اسی طرح حضرت سیدنا ابو بکر مروزی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی فرماتے ہیں: ’’میں چار ماہ حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ کی صحبت میں رہا، آپ نہ تو رات کا قیام چھوڑتے، نہ ہی دن کی قراءت چھوڑتے، اس کے باوجود اُسے چھپا لیا کرتے۔‘‘

 :اِخلاص کے فضائل کو پیش نظر رکھیے
اِخلاص کے ساتھ عمل کرنا مؤمن کی نشانی ہے۔ جو بندہ چالیس دن خالص رِضائے الٰہی کے لیے عمل کرتا ہے تو اُس کے دل سے اُس کی زبان پر حکمت کے چشمے جاری ہو جاتے ہیں۔جو شخص خالص رِضائے الٰہی کے لیے عمل کرتا ہے وہ شیطان کے مکروفریب سے بچ جاتاہے۔ اِخلاص کے ساتھ مانگی جانے والی دعائیں مقبول ہوتی ہیں۔ بعض بزرگانِ دِین کے نزدیک اِخلاص کے ساتھ کیا جانے والا عمل ستر حج سے بڑھ کر ہے۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں:’’خلوت میں اِخلاص کے ساتھ دو رکعت پڑھنا ستر یا سات سو اَحادیث عالی سند کے ساتھ لکھنے سے بہتر ہے۔‘‘ایک بزرگ فرماتے ہیں: ’’گھڑی بھر کے اِخلاص میں اَبدی نجات ہے۔‘‘ اخلاص نیکیوں پراُبھارتا ہے۔

 :مخلص کی تعریف کا علم حاصل کیجئے

جب اس بات کا علم ہی نہیں ہوگا کہ مخلص کسے کہتے ہیں تو خود کیسے مخلص بنیں گے؟ حضرت سیدنا یعقوب مکفوف رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ’’مخلص وہ ہے جو اپنی نیکیوں کو ایسے چھپائے جیسے اپنے گناہوں کو چھپاتا ہے۔‘‘حضرت سیدنا ابو سلیمان دارانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی فرماتے ہیں: ’’سعادت مند ہے وہ شخص جس کا ایک قدم بھی صحیح ہوجائے کہ اس میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سوا کسی اور کی نیت نہ ہو۔‘‘ حضرت سیدنا ابو علی دقاق عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الرَّزَّاق فرماتے ہیں: ’’اخلاص مخلوق کی نگاہوں سے بچنے کا نام ہے۔‘‘حضرت سیدنا ذوالنون مصری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی فرماتے ہیں: ’’اخلاص کی علامت یہ ہے کہ بندے کے لیے لوگوں کی طرف سے کی جانے والی تعریف اور مذمت دونوں ایک جیسی ہوں۔‘‘

 :اِخلاص نہ ہونے کے اُخروی نقصانات پر غور کیجئے
مثلاً بروزِ قیامت ایسے اَعمال منہ پر مار دیے جائیں گے جو اِخلاص کے ساتھ نہ کیے ہوں گے، چنانچہ بروزِ قیامت ایک شہید سے فرمایا جائے گا کہ تو نے اس لیے قتال کیا تاکہ تجھے بہادر کہا جائے، سو تجھے کہہ لیا گیا، ایک عالم سے فرمایا جائے گا کہ تو نے علم اس لیے حاصل کیا کہ تجھے عالم کہا جائے، تجھے قاری کہا جائے، سو تجھے کہہ لیا گیا، ایک مال دار سے فرمایا جائے گا کہ تو نے اس لیے مال خرچ کیا تاکہ تجھے سخی کہا جائے سو تجھے کہہ لیا گیا، پھر ان سب کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

 :اخلاص سے متعلق اقوالِ بزرگانِ دِین کا مطالعہ کیجئے

حضرت سیدنا سہل تستری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی فرماتے ہیں: ’’اخلاص یہ ہے کہ بندے کا ٹھہرنا اور حرکت کرنا سب خالصتاً اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لیے ہو۔‘‘حضرت سیدنا ابو عثمان نیشاپوری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْوَلِی فرماتے ہیں: ’’اخلاص یہ ہے کہ فقط خالق کی طرف ہمیشہ متوجہ رہنے کی وجہ سے مخلوق کو دیکھنا بھول جائے۔‘‘ حضرت سیدنا جنید بغدادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْہَادِی فرماتے ہیں: ’’اِخلاص اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور بندے کے درمیان ایک راز ہے، اسے فرشتہ نہ جانے کہ لکھ لے اور شیطان بھی نہ جانے کہ خرابی پیدا کرے اور خواہش نفس کو بھی اس کا علم نہ ہو کہ اسے اپنی طرف مائل کرے۔ حضرت سیدنا عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حواریوں نے آپ کی بارگاہ میں عرض کی: ’’اَعمال میں خالص کون ہے؟‘‘ فرمایا: ’’جو اللہ عَزَّ َوجَلَّ کے لیے عمل کرتا ہے اور پسند نہیں کرتا کہ اس پر کوئی اس کی تعریف کرے۔