حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان

05/02/2025

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان حقیقتاً ایک گہرا پیغام ہے جو ہمیں فتنے کی حقیقت اور اس کے اثرات کو سمجھنے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ یہ حدیث اس وقت کی حالت کو بیان کرتی ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنے کے پھیلاؤ کا ذکر کیا تھا، اور اس میں بہت ساری عبرتیں اور سبق ہیں جو آج کے دور میں بھی ہمارے لئے انتہائی اہم ہیں۔

فتنے کا مفہوم اور اس کا اثر:

فتنہ ایک ایسا لفظ ہے جو فساد، آزمائش، بگاڑ یا کسی ایسی صورتحال کو ظاہر کرتا ہے جس سے لوگوں کا ایمان یا اخلاق متاثر ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں فتنے کا ذکر اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جب معاشرتی، سیاسی یا مذہبی طور پر انسانوں کی فطرت میں بگاڑ آتا ہے تو یہ فتنہ کہلاتا ہے۔ یہ فساد مختلف شکلوں میں ظاہر ہو سکتا ہے، جیسے معاشرتی فساد، مذہبی غلط فہمیاں، اخلاقی انحطاط، یا حتیٰ کہ جنگوں اور قتل و غارت کی صورت میں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ فتنے گھروں میں برسات کے قطروں کی طرح داخل ہو رہے ہیں، یعنی یہ فتنے پہلے چھوٹے چھوٹے انداز میں شروع ہوتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ وسیع تر ہوتے جاتے ہیں، یہاں تک کہ پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ فتنے ابتدا میں نرمی سے آتے ہیں اور انسان انہیں معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیتا ہے، لیکن جب یہ بڑھتے ہیں تو ان کا اثر بہت گہرا اور تباہ کن ہوتا ہے۔
آج ہم کسی سے اپنی تکلیف کا ذکر کرتے ہیں تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ اگلا یا سننے والا اس سے کہیں بڑی آزمائش سے گزر رہا ہوتا ہے. یہی نہیں بلکہ آپ کسی معاشرتی یا سوشل سروے کے تحت گھر گھر کی کہانی سنیں گے تو رشتوں میں عدم اعتماد، مبالغہ آرائی اور ایک دوسرے کے ساتھ نامخلصی عام طور پر پائی جاتی ہے. وجہ خاموش فتنے کی پیداوار ہے.

موجودہ دور میں فتنوں کی صورتحال:

آج کے دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر طرف فتنوں کا سامنا ہے، چاہے وہ اخلاقی انحطاط ہو، دین سے دوری ہو، یا پھر سیاسی اور معاشرتی کشمکش۔ میڈیا، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے غلط فہمیاں اور افواہیں پھیلائی جاتی ہیں، جن کا مقصد لوگوں کے درمیان نفرت، دشمنی اور فتنہ پیدا کرنا ہوتا ہے۔ دین کی صحیح تعلیمات کو مسخ کر کے لوگوں کو گمراہی کی طرف راغب کیا جاتا ہے، اور یہ سب کچھ اس طرح ہوتا ہے جیسے برسات کے قطروں کی طرح پھیلتا جائے۔

اخلاقی فتنہ:
آج کل اخلاقی اقدار میں زوال آ چکا ہے۔ بے حیائی، جھوٹ، فریب اور دیگر اخلاقی برائیاں معاشرے کا حصہ بن چکی ہیں۔ یہ اخلاقی انحطاط ہمیں فتنے کی صورت میں دکھائی دیتا ہے، جس کا اثر فرد سے لے کر پورے معاشرے تک پھیل رہا ہے۔

سماجی فتنہ:
سماجی سطح پر بھی ہم بہت سارے فتنے دیکھ رہے ہیں۔ فرقہ واریت، مذہبی تعصب، اور نسل پرستی جیسے مسائل معاشرتی ہم آہنگی کو متاثر کر رہے ہیں۔ ہر طرف نفرت کی فضاء بن رہی ہے، اور لوگ ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑے ہو رہے ہیں۔

سیاسی فتنہ:
آج کا سیاسی منظرنامہ بھی فتنوں سے بھرا ہوا ہے۔ ہر طرف طاقت کی جنگ، مفادات کا ٹکراؤ اور اقتدار کے لیے بے رحمانہ مقابلے ہو رہے ہیں۔ ان سیاسی کشمکشوں کے نتیجے میں عوام کی زندگی میں عدم استحکام اور بے چینی پیدا ہو رہی ہے۔

روحانی فتنہ:
سب سے بڑا فتنہ وہ ہے جو دین و ایمان کے حوالے سے پھیل رہا ہے۔ بہت سے لوگ دین سے منحرف ہو رہے ہیں یا اس میں اپنی مرضی کی تشریحات کر کے غلط راستوں پر چل پڑتے ہیں۔ اس سے مسلمانوں کا ایمان متاثر ہو رہا ہے اور ان کے عقائد میں اضطراب پیدا ہو رہا ہے۔

فتنے سے بچاؤ کے طریقے:

اسلام ہمیں ان فتنوں سے بچنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے مختلف ہدایات دیتا ہے۔

ایمان کی پختگی:
سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ انسان کا ایمان مضبوط ہو، کیونکہ ایمان کی پختگی انسان کو فتنوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت دیتی ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل کرنے سے انسان اپنی عقیدے کی حفاظت کر سکتا ہے۔

علم کا حصول:
علم انسان کی رہنمائی کرتا ہے اور اسے فتنے سے بچنے کے طریقے سکھاتا ہے۔ جب انسان کو صحیح علم حاصل ہوتا ہے تو وہ فتنوں کو پہچان کر ان سے بچ سکتا ہے۔

تقویٰ اور پرہیزگاری:
تقویٰ اختیار کرنا انسان کو فتنوں سے بچاتا ہے۔ اللہ کے خوف اور اس کی رضا کی تلاش انسان کو برے راستوں سے دور رکھتی ہے۔

مستقل دعا:
اللہ سے مدد کی درخواست کرنا، اس کے ساتھ تعلق مضبوط کرنا، اور مسلسل دعا کرنا فتنوں سے بچاؤ کے لئے ایک اہم ذریعہ ہے۔

اجتماعی ایکجہتی:
مسلمان معاشرتی سطح پر ایک دوسرے کا ساتھ دیں، اور متحد ہو کر فتنوں کا مقابلہ کریں۔ اجتماعی طور پر اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے فتنوں کا سامنا کرنا زیادہ موثر ہوتا ہے۔

نتیجہ:

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ہمارے لیے ایک واضح انتباہ ہے کہ ہمیں فتنے سے بچنے کے لئے چوکنا رہنا چاہیے اور اپنے ایمان کو مضبوط رکھنا چاہیے۔ ہر دور میں فتنوں کی صورت مختلف ہو سکتی ہے، لیکن ان کا مقصد ہمیشہ انسانوں کو دین سے دور کرنا ہوتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم علم حاصل کریں، دین پر عمل کریں، اور اللہ کی مدد طلب کریں تاکہ ہم ان فتنے سے بچ سکیں جو آج کی دنیا میں پھیل چکے ہیں۔

اللہُ أَحْسَنُ وَأَعْلَمُ