دنیا کی ہر شے سے دستبردار ہو جاؤ، سکون پا لو گے
20/01/2025
نیچے دیئے گئے پکچر میسیج کو پڑھ کر بیک وقت دل اور دماغ جو کچھ سمجھ پایا، وہ تحریر کر رہی ہوں.
بنی نوع انسان ایک سوچے سمجھے لائحہ عمل کو follow کرنے کے مجاز ہیں. زندگی کو خوب سے خوب تر بنانے کے چکر میں ہم اپنے دنیا میں آنے کا مقصد ہی بھول بیٹھتے ہیں… بس ایک دھن ہمیں دوسروں سے کیسے آگے نکلنے اور ان پر سبقت لے جانے کی دوڑ ہمیں ہمارے لائحہ عمل سے دور کر دیتی ہے. بچپن اور جوانی پڑھائی کی دوڑ، پھر کسب معاش کی دوڑ، شادی اور کنبہ پروری کی دوڑ، ادھیڑ پن اور پھر اپنا گھر بنانے اور بچے بیاہنے کی دوڑ… تو گویا ہر سو دوڑ ہی دوڑ… دنیا کا چاہے کوئی شعبہ لے لیں، ہر کوئی کسی نا کسی دوڑ کا کھلاڑی نظر آتا ہے. جبکہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں؛
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱسْتَعِينُوا۟ بِٱلصَّبْرِ وَٱلصَّلَوٰةِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلصَّـٰبِرِينَ. البقرۃ آیت 153
ترجمہ؛ اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد چاہو بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے.
مصیبت پر صبر کرنے کے کئی آداب ہیں ، ان میں سے 4 آداب یہ ہیں جنہیں علامہ ابن قدامہ مقدسی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی کتاب’’مختصر مِنہاجُ القَاصِدین‘‘ کے صفحہ277 پر ذکر فرمایا ہے۔
(1)… جب مصیبت پہنچے تو اسی وقت صبر و اِستِقلال سے کام لیا جائے، جیسا کہ حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ صبر صدمہ کی ابتداء میں ہوتا ہے.
(2)… مصیبت کے وقت ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھا جائے ،جیسا کہ حضرت ام سلمہ نے اپنے شوہر کے انتقال پر ’’ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھا۔
(3)… مصیبت آنے پر زبان اور دیگر اعضا سے کوئی ایسا کلام یا فعل نہ کیا جائے جو شریعت کے خلاف ہو جیسے زبان سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکوہ و شکایت کے کلمات بولنا، سینہ پیٹنا اورگریبان چاک کر لینا وغیرہ۔
(4)…صبر کی سب سے بہترین صورت یہ ہے کہ مصیبت زدہ پر مصیبت کے آثار ظاہر نہ ہوں جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے، حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :’’ حضرت ام سُلَیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے بطن سے حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا ایک لڑکا فوت ہو گیا۔ حضرت ام سُلَیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے اپنے گھر والوں سے کہا:حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ان کے بیٹے کے انتقال کی خبر اس وقت تک نہ دینا جب تک میں خود انہیں نہ بتا دوں۔ جب حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ آئے تو حضرت ام سُلَیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے انہیں شام کا کھانا پیش کیا،انہوں نے کھانا کھایا اور پانی پیا،پھر حضرت ام سُلَیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے پہلے کی بہ نسبت زیادہ اچھا بناؤ سنگھار کیا۔ حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے ازدواجی عمل کیا جب حضرت ام سُلَیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دیکھا کہ وہ سیر ہو گئے اور اپنی فطری خواہش بھی پوری کر لی ہے، تو پھر انہوں نے کہا: اے ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، یہ بتائیں کہ اگر کچھ لوگ کسی کو عاریت کے طور پر کوئی چیز دیں پھر وہ اپنی چیز واپس لے لیں تو کیا وہ ان کو منع کر سکتے ہیں ؟ حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا :”نہیں” ۔ حضرت ام سُلَیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے کہا تو پھر آپ اپنے بیٹے کے متعلق یہی گمان کر لیں (کہ وہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت تھا جو اس نے واپس لے لی یعنی اس کا انتقال ہو چکا ہے. (مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ)
اورحضرت مطرف رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا بیٹا فوت ہوگیا۔ لوگوں نے انہیں بڑا خوش و خرم دیکھا تو کہا کہ کیا بات ہے کہ آپ غمزدہ ہونے کی بجائے خوش نظر آرہے ہیں۔ فرمایا: جب مجھے اس صدمے پر صبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے درود و رحمت اور ہدایت کی بشارت ہے تو میں خوش ہوں یا غمگین؟ (مختصرمنہاج القاصدین)
اورامام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ’’ احیاء العلوم ‘‘میں فرماتے ہیں : ’’ حضرت فتح موصلی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی زوجہ پھسل گئیں تو ان کا ناخن ٹوٹ گیا،اس پر وہ ہنس پڑیں ،ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کو درد نہیں ہو رہا؟ انہوں نے فرمایا: ’’اس کے ثواب کی لذت نے میرے دل سے درد کی تلخی کو زائل کر دیا ہے۔
یہ باتیں تو متقیوں اور پرہیزگاروں سے منسوب ہیں، لیکن ہماری تربیت اور اصلاح کے لئے کسی مشعل راہ سے کم نہیں.
آج ہمیں ہر نعمت موجود ہے، لیکن سکون نہیں… ہم بچپن سے رٹی رٹائی نماز پڑھ کر اپنا فرض ادا کر لیتے ہیں، لیکن نماز میں کیا پڑھا جا رہا ہے اس کے معنی سے غافل و بے خبر رہتے ہیں. اور صبر کے بارے میں کیا کہا جائے، یہاں صبر کا مطلب ہی کسی کو معلوم نہیں. ہم وہی مادیت پرستی کے فریب میں مبتلا لوگ اسے ہی زندگی سمجھ بیٹھے ہیں.
دنیا کی بے شمار چیزیں انسان کی زندگی میں مختلف قسم کے رشتہ، خواہشات اور لذات پیدا کرتی ہیں۔ یہ تمام چیزیں انسان کو کبھی خوشی، کبھی غم اور کبھی غمگین کر دیتی ہیں۔ ان سب چیزوں کے ساتھ انسان کا تعلق ہوتا ہے، اور وہ ان کے ذریعے سکون اور سکون کی تلاش میں رہتا ہے۔ تاہم، ان تمام چیزوں میں ایک خاص حقیقت چھپی ہوئی ہے:
وہ چیزیں کبھی مکمل سکون نہیں دے سکتیں۔
اگر ہم دنیا کی تمام خواہشات اور اشیاء سے دستبردار ہو جائیں، تو ہمیں ایک ایسی آزادی حاصل ہوتی ہے جس میں نہ کوئی خواہش ہو، نہ کوئی عیش و آرام کی آرزو۔ اس آزادی کا تجربہ انسان کو ایک ایسے سکون کی طرف لے جاتا ہے جس کا تصور وہ دنیا کی تمام چیزوں میں تلاش کرتا ہے، مگر جو کہیں بھی اس کو مکمل طور پر نہیں ملتا۔
دنیا کے تعلقات، دولت، شہرت اور طاقت کے پیچھے دوڑنا انسان کو ایک نہ ختم ہونے والے چکر میں پھنساتا ہے۔ یہ چکر انسان کو ہمیشہ کچھ اور کی تلاش میں لگا رہتا ہے۔ لیکن جب انسان ان تمام چیزوں سے دستبردار ہو جاتا ہے، تو وہ ایک داخلی سکون کا احساس کرتا ہے جو دنیا کی چیزوں سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ وہ سکون جو نہ کسی چیز سے مشروط ہوتا ہے اور نہ کسی مقصد کے حصول سے، بلکہ یہ سکون صرف داخلی سطح پر ہی حاصل ہوتا ہے۔
یہ دستبرداری کسی طرح کی نرگسیت یا مادی دنیا سے فرار نہیں ہوتی، بلکہ یہ ایک گہری روحانی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ انسان جب دنیا کی ہر شے سے دستبردار ہو کر اپنے اندر کے سکون کو تلاش کرتا ہے، تو وہ حقیقت میں اپنی حقیقت کو پہچانتا ہے، جو ہر خواہش، ہر رشتہ اور ہر تعلق سے آزاد ہوتی ہے۔
آخرکار، دنیا کی ہر شے سے دستبرداری انسان کو ایک ایسا سکون فراہم کرتی ہے جو ہمیشہ موجود ہوتا ہے، مگر ہم اکثر اس کی حقیقت سے غافل رہتے ہیں۔ گھر پر سکون نہ ملے تو باہر سکون تلاش کرتے ہیں… حالانکہ سکون کو ڈھونڈا نہیں جاتا، اپنوں کو خوشی دے کر، اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پوری دیانتداری سے بجا آوری سے ہی ممکن ہے. لیکن لوگ easy escape کی راہیں تلاش کر. ے میں سرگرداں رہتے ہوئے اس دوڑ کا حصہ بن جاتے ہیں. کیا ہی برا سودا کرتے ہیں وہ، آخرت کو چھوڑ کر دنیاوی لذتوں کے لا متناہی اور بے ہنگم سلسلے پر قدم جما کر، دنیا کا سستا ترین اور گھاٹے کا سودا کر کے.
یہ سکون نہ کسی چیز پر منحصر ہوتا ہے، نہ کسی واقعہ یا کامیابی پر، بلکہ یہ ایک ایسی داخلی حالت ہے جو صرف اس وقت حاصل ہوتی ہے جب انسان دنیا کی بے شمار خواہشات اور لذات سے خود کو آزاد کر لیتا ہے۔