صدائے دل
07/12/2024
کتاب “صدائے دل” کی ایک خوبصورت نظم ملاحظہ فرمائیں؛
یہ انسانی فطرت عجب ہے خدایا
کہ جو دَور گزرا وہی دل کو بھایا
جوانی میں اسکول دفتر میں کالج
ضعیفی مں دفتر بڑا یاد آیا
مزاج بشر میں تغیر سمایا
کبھی آدمی مطمئن ہو نہ پایا
کہیں شام گزری، کہیں رات کاٹی
سفر در سفر زندگی کو بِتایا
یہ جیون ہے سانسوں کی اک ریل گاڑی
یہ دنیا ہے چلتے مسافر کا سایا
جہاں تھک گئے شام کی چائےپی لی
سرائے میں سوئے تو ہوٹل میں کھایا
یہ گندم کی روٹی کے چند ایک لقمے
اِنہی کے لیے آدمی نے کمایا
یہ مصروف شہروں کی مشغول دنیا
یہاں کسبِ دولت نے سب کو تھکایا
گھڑی کی طرح زندگی کو چلایا
مگر وقت نے آدمی کو ہرایا
بھلے ہیں بہت گاؤں کے کچے رستے
وہ گیہوں کے کھیت اور درختوں کا سایا
وہ لسی ، وہ سرسوں کا ساگ اُس پہ مکھن
دُھلے ہاتھ نہروں سے، کھیتوں میں کھایا
یہ شہروں کی دنیا عجب ہے خدایا
رہا ساتھ پر آدمی مِل نہ پایا
سمجھنے سمجھنے میں جیون بِتایا
کوئی بھی کسی کی سمجھ میں نہ آیا
میسر سے دل مطمئن ہو نہ پایا
عدم دستیابی کا ہی راگ گایا
مِلا سب کو وہ ! جو نہیں چاہیے تھا
یہاں حسبِ منشاء کسی نے نہ پایا
یہ دنیا ہے وحشی درندوں کا جنگل
اصولوں سے انساں نے اس کو سجایا
مگر رسمِ عالم ہے قانونِ طاقت
توانا نے لاغر پہ سکہ جمایا
ابھی کوئی گزرا ، ابھی کوئی آیا
پلٹتی ہے انساں کی دم بھر میں کایا
نہ ہے کوئی مائی، نہ ہے کوئی جایا
مرا آج بندہ ہوا کل پرایا
سبھی نے گھروں کو اِرم سا بنایا
مگر چار دن صرف ڈیرا جمایا
دُکھوں کی ہے دھوپ اور سُکھوں کی ہے چھایا
زمانہ سراب اور دنیا ہے مایا
یہاں آدمی مطئن ہو نہ پایا
یہاں آدمی مطمئن ہو نہ پایا
شاعر؛ زبیر راج صاحب