ہر حاصل کو لا حاصل کی طلب ہے

20/11/2024

(جو حاصل ہو جائے اس کی ناقدری ہے اور جو نہ مل سکے اس کی طلب ہے.)

یہ عبارت انسان کی فطرت اور خواہشات کی ایک گہری حقیقت کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ہمیشہ اپنی حالت سے عدم اطمینان میں مبتلا رہتا ہے۔ جب وہ کسی چیز کو حاصل کر لیتا ہے، تو وہ اس کی قدر نہیں کرتا، بلکہ اسے ایک عام سی چیز سمجھ لیتا ہے اور اس کی قدر و قیمت کم محسوس ہوتی ہے۔ دوسری طرف، جو چیز اس کے پاس نہیں ہوتی، وہ اس کے حصول کی شدت سے خواہش کرتا ہے اور اس کے بارے میں فکر کرتا رہتا ہے۔

یہ طرزِ فکر انسان کی اندرونی بے سکونی کی نشاندہی کرتا ہے۔ جب تک انسان کسی چیز کو نہیں پاتا، وہ اس کی اہمیت اور قدر کا احساس کرتا ہے، مگر جیسے ہی وہ چیز اسے مل جاتی ہے، وہ اس میں دلچسپی کم کر دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی خواہشیں ہمیشہ لامتناہی ہوتی ہیں اور وہ اپنی موجودہ حالت سے مطمئن نہیں رہ پاتا۔

اس کا ایک گہرا فلسفیانہ پہلو بھی ہے کہ انسان کی نظر ہمیشہ آئندہ کی طرف ہوتی ہے، اور جو کچھ اس کے پاس ہوتا ہے، وہ اس کی نظر سے اوجھل رہتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان مادی چیزوں میں خوشی اور سکون کی تلاش کرتا رہتا ہے، مگر وہ کبھی مکمل طور پر اس سے مطمئن نہیں ہو پاتا۔

اس اقتباس میں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کی خواہشات مسلسل گردش میں رہتی ہیں، اور یہ لامتناہی طلب اور حاصل کی ناقدری کا عمل اس کی زندگی کی ایک نمایاں خصوصیت بن جاتی ہے۔
اب چاہے وہ وقت ہو، محبت ہو، رشتہ ہو، خلوص ہو یا پھر نفرت اور منافقت ہو انسان اسی کے گرد گھوم رہا ہے.

انسان کا دل ہمیشہ کچھ نہ کچھ چاہتا رہتا ہے اور جب وہ کچھ حاصل نہیں کر پاتا، تو اس میں غم یا شکوہ پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اسلام میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ انسان کو اپنی تقدیر پر راضی رہنا چاہیے اور جو کچھ اس کے پاس ہے، اس پر شکر گزار ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں چند اہم نکات ہیں جو ہمیں اللہ تعالیٰ کے شکر گزار اور مطمئن رہنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں:

1. اللہ کی رضا پر ایمان:
ہمیں یہ ایمان رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی ہمیں دیا ہے، وہ ہمارے بہترین مفاد کے لیے ہے۔ اگر کچھ نہیں مل رہا یا کسی خواہش کا پورا نہ ہونا، تو اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى
سورت الضحٰی آیت نمبر 5
“اور بیشک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہوجاؤ گے۔”
یہ یقین انسان کو صبر اور سکون عطا کرتا ہے۔

2. شکرگزاری کا عمل:
جو کچھ ہمارے پاس ہے، ہمیں اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنی زندگی کی چھوٹی بڑی نعمتوں کا شمار کرنا چاہیے اور ان پر غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کتنی چیزیں عطا کی ہیں جن کے بغیر ہم گزارا نہیں کر پاتے۔

3. صبر اور تقدیر کو قبول کرنا:
اگر کوئی چیز نہیں ملتی یا ہماری کوششیں کامیاب نہیں ہوتیں، تو ہمیں صبر سے کام لینا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو تسلیم کرنا چاہیے۔ صبر ایمان کا حصہ ہے اور قرآن پاک میں بار بار اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ صبر انسان کو اللہ تعالیٰ کے راستے پر چلنے کی طاقت دیتا ہے، چاہے حالات جیسے بھی ہوں۔

4. دعاؤں کا اہتمام:
انسان اپنی حاجات اور خواہشات کو اللہ تعالیٰ کے سامنے رکھ سکتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے ہمارے لیے بہترین ہوتے ہیں۔ دعاؤں کے ذریعے ہم اپنی خواہشات کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

5. کامیابی اور ناکامی دونوں میں سکون:
جو کچھ ہمارے پاس ہے، چاہے وہ دنیاوی لحاظ سے کم ہو یا زیادہ، ہمیں اسے اللہ تعالیٰ کی عطا سمجھ کر قبول کرنا چاہیے۔ دنیاوی کامیابیاں اور ناکامیاں عارضی ہیں، مگر اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے ساتھ تعلق ہمیشہ برقرار رہنا چاہیے۔ اگر ہم اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق گزاریں، تو ہم ہر حال میں سکون اور اطمینان پائیں گے۔

6. دنیا کی فانی حقیقت کو سمجھنا:
یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ دنیا کی چیزیں عارضی ہیں اور ہمیشہ انسان کی خواہشات پوری نہیں ہوتیں۔ جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت ہے، اور اگر کوئی چیز ہمارے پاس نہیں آتی، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ناکام ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو دیا ہے، وہ ہماری تقدیر کے مطابق بہترین ہے۔

نتیجہ:
ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے اور اس کی رضا پر راضی ہو کر زندگی گزاریں تو نہ تو ہم حاصل کے نہ ملنے پر شکوہ کریں گے اور نہ ہی حاصل ہونے پر غرور کریں گے۔ اللہ کی حکمت، شکرگزاری، صبر اور ایمان ہی وہ راستہ ہیں جو ہمیں ہر حال میں سکون اور اطمینان فراہم کرتے ہیں۔