نسل نو کی تربیت فکر اقبال کی روشنی میں

09/11/2024

آج صبح اقبال ڈے پر womens excellence center کی جانب سے ایک لیکچر منعقد کیا گیا، جس کا عنوان ” نسل نو کی تربیت فکر اقبال کی روشنی میں” ڈاکٹر زبیدہ جبین صاحبہ نے کیا خوب الفاظ اور جملوں کا چناؤ کیا کہ ساری توجہ ان کے اظہار خیال کے حصار سے باہر نکل نہ پائی. اس دوران انہوں نے آج کے دور کی ترجیحات کو بھی اجاگر کیا.
“آج کل کی مائیں علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح جیسے عظیم لیڈر کیوں پیدا نہیں کرتیں؟
میں بھی اپنی بہو کے ساتھ لیکچر سننے گئ ہوئی تھی. جو کچھ مجھے سمجھ آیا وہ بتدریج پوائنٹس کی صورت میں حاضر خدمت ہے.

اس سوال کا جواب مختلف زاویوں سے تلاش کیا جا سکتا ہے، اور اس کے کئی عوامل ہیں جو اس صورتحال کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ ہم اس سوال کو مختلف سماجی، اقتصادی، اور ثقافتی تناظرات میں دیکھ سکتے ہیں۔

1. “سماجی تبدیلیاں اور تربیتی ماحول”
ایک زمانہ تھا جب ماؤں کا بنیادی کردار اپنے بچوں کی تربیت میں تھا۔ وہ اپنے بچوں کو صرف ادب و اخلاق ہی نہیں سکھاتی تھیں، بلکہ انہیں اپنے کردار، مقصد اور قومی شعور کی طرف بھی رہنمائی فراہم کرتی تھیں۔ مائیں، گھر کے ماحول میں اور معاشرتی سطح پر، اپنے بچوں کو ایک مقصد کے ساتھ زندگی گزارنے کی اہمیت سمجھاتی تھیں۔ لیکن آج کل کا ماحول بدل چکا ہے۔ جدید دور میں ماؤں کی توجہ زیادہ تر بچوں کی مادی کامیابیوں اور تعلیمی معیار پر مرکوز ہو گئی ہے۔ زیادہ تر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ بچے اچھے نمبر حاصل کریں، اچھی نوکری حاصل کریں، اور زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کریں، لیکن اصل مقصد یا قومی ذمہ داری کی طرف کم توجہ دی جاتی ہے۔

2. “تعلیمی اور معاشی دباؤ”
آج کل کے معاشی اور تعلیمی تقاضے ماؤں پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ معاشی مشکلات اور فلاحی اداروں کی کمی کی وجہ سے مائیں اکثر اپنے بچوں کو معاشی سطح پر کامیاب بنانے کی کوششوں میں جٹ جاتی ہیں۔ یہ مائیں زیادہ تر اپنے بچوں کو محض “کامیاب” فرد بنانے کی کوشش کرتی ہیں، نہ کہ ایک قائد یا مفکر۔ تعلیم کا معیار بڑھا ہے، مگر اس میں اخلاقی، قومی یا فکری سطح پر وہ گہرائی نہیں ہے جو پہلے تھی۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم یا علامہ اقبال جیسے رہنما آج کے دور میں کم نظر آتے ہیں۔

3. “تاریخی تسلسل کا فقدان”
ماضی میں جب علامہ اقبال اور قائد اعظم جیسے لیڈر سامنے آئے، تو وہ ایک مخصوص تاریخی اور سماجی پس منظر میں پروان چڑھے تھے۔ برطانوی حکمرانی اور آزادی کی جدوجہد میں عوامی شعور اور قربانی کا جذبہ انتہائی اہمیت رکھتا تھا۔ ماؤں کا کردار اس تحریک کے ذریعے اپنے بچوں میں آزادی کی اہمیت اور قومیت کا شعور پیدا کرنا تھا۔ آج کے دور میں آزادی کے حصول کی جدوجہد ختم ہو چکی ہے، اور اس کی جگہ معاشی ترقی اور عالمی سطح پر تسلیم کی جانے والی کامیابیاں لے آئی ہیں۔ اس لیے مائیں اپنے بچوں میں وہ جذبہ اور قومی شعور پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتیں جو اس وقت تھا۔

4. “نظام تعلیم کی کمی”
آج کل کے نظامِ تعلیم میں اخلاقی اور فکری تربیت کی کمی ہے۔ پہلے مدارس، مساجد اور دیگر دینی ادارے بچوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے تھے، اور بچوں کو اسلامی، ثقافتی اور قومی اقدار سے روشناس کراتے تھے۔ لیکن آج کل کے تعلیمی ادارے زیادہ تر مادی ترقی اور ترقیاتی علوم پر زور دیتے ہیں، جبکہ قومیت، اخلاقیات اور قائدانہ صلاحیتوں کی تربیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم جیسے رہنما ایسے وقت میں اُبھرے جب ان کی تعلیم اور تربیت میں نہ صرف فلسفہ و سائنس کی اہمیت تھی، بلکہ قومی شعور اور اخلاقی ذمہ داری بھی بنیادی جزو تھی۔

5. “موجودہ معاشرتی رویے اور میڈیا کا اثر”
آج کل کا میڈیا نوجوانوں کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ ٹی وی شوز، سوشل میڈیا، اور دیگر تفریحی مواد نوجوانوں کو غیر حقیقی دنیا اور کامیابیوں کے پیچھے دوڑنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہ مادیت پرستی کو فروغ دیتے ہیں اور ایک لیڈر کی وہ خصوصیات جو اقبال اور جناح میں موجود تھیں—جیسے خودی، قربانی، قومی ذمہ داری، اور عزم—کم ہو رہی ہیں۔ ماؤں کے لیے یہ چیلنج بن چکا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اس دباؤ سے بچا کر انہیں اصل مقصد کی طرف رہنمائی دیں۔

6. “خاندانی نظام میں تبدیلی”
پہلے جب خاندانوں میں کئی افراد شامل ہوتے تھے، تو بچوں کی تربیت میں بزرگوں، والدین اور رشتہ داروں کا ایک مضبوط نیٹ ورک ہوتا تھا۔ مائیں اور دیگر افراد بچوں کی اخلاقی اور قومی تربیت میں ایک دوسرے کے معاون ہوتے تھے۔ آج کل جو نیوکلیئر خاندان ہیں، ان میں صرف والدین ہی بچوں کی تربیت کا واحد ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بچوں کے لیے ایک جامع اور بھرپور تربیتی ماحول فراہم کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

نتیجہ:
آج کل کی مائیں اگرچہ اپنے بچوں کو بہترین تعلیم دینے کی بھرپور کوشش کرتی ہیں، لیکن وہ قومی اور اخلاقی تربیت کے حوالے سے اتنی کامیاب نہیں ہو پاتیں۔ اس کی وجہ مادی کامیابی کی طرف بڑھتا ہوا رجحان، معاشی دباؤ، نظام تعلیم کی کمی، اور معاشرتی تبدیلیاں ہیں۔ تاہم، یہ بات بھی اہم ہے کہ جب تک ہم اپنے معاشرتی، تعلیمی اور ثقافتی نظام کو اس طرح ڈھال نہیں لیتے کہ وہ بچوں میں اقبال و جناح جیسے لیڈرز پیدا کر سکے، تب تک اس سوال کا جواب محدود رہ جائے گا۔ ہمیں اپنے تربیتی نظام، میڈیا اور معاشرتی رویوں پر نئے سرے سے غور کرنا ہوگا تاکہ ہم اپنی نسل کو نہ صرف تعلیمی طور پر کامیاب، بلکہ اخلاقی، قومی اور قائدانہ طور پر بھی مضبوط بنا سکیں۔