مارخور، پاکستان کا قومی جانور
05/11/2024
تحریر : خاور نیازی
مارخور جس کو پاکستان کے قومی جانور ہونے کا اعزاز حاصل ہے یہ جنگلی بکرے کی ایک قسم کا چرندہ ہے۔ یہ بنیادی طور پر پہاڑی جانور ہے جو عموماً 600 سے3600میٹر تک کی بلندیوں پر پایا جاتا ہے۔ اس جانور کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہ ان 72جانوروں میں شامل ہے جن کی تصاویر ڈبلیو ڈبلیو ایف کے 1976ء میں جاری کردہ سکوں پر کندہ ہیں۔
ابتدائی تعارف :
جنگلی بکروں سے ملتا جلتا یہ جانور جس کے لفظی معنی فارسی میں”سانپ کھانے والا‘‘ کے ہیں۔ کیونکہ فارسی میں ”مار‘‘ سانپ کو کہتے ہیں جبکہ ”خور‘‘ کے معنی کھانے والا کے ہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق مارخور چونکہ ایک چرند ہے اس لئے سانپ یا جانور کھانا اس کی فطرت کے خلاف ہے۔ جبکہ اس جانور بارے صدیوں سے سنی جانے والی لوک کہانیوں کے مطابق مارخور سانپ کو اپنے سینگوں کے ذریعے مار کر چبا جاتا ہے اور اس کی جگالی کے نتیجے میں اس کے منہ سے جو جھاگ نکلتی ہے وہ نیچے گرتے ہی خشک اور سخت ہو جاتی ہے۔ اس سے منسلک کہاوت یہ بھی ہے کہ یہ خشک جھاگ سانپ کے کاٹے کا مؤثر علاج تصور ہوتا ہے۔ ایک اور روایت کے مطابق اس کے نام کی مناسبت اس کے سینگوں کی وجہ سے بھی ہے جو سانپ کی طرح بل دار ہوتے ہیں۔
مارخور عمومی طور پر سیاہی مائل بھورے رنگ میں پائے جاتے ہیں جبکہ ان کی ٹانگوں کا نچلا حصہ سفید اور سیاہی مائل ہوتا ہے۔ نر مارخور کے سینگ لگ بھگ 65 انچ جبکہ مادہ کے سینگ 10انچ لمبے ہوتے ہیں۔ مارخور کا قد عام طور پر 26 انچ سے لیکر 45 انچ تک ہوتا ہے، اس کی لمبائی 52 انچ سے لیکر 72انچ تک ہوتی ہے۔
خوراک اور عادات : مارخور چونکہ بنیادی طور پر ایک چرند ہے اس لئے گھاس ہی اس کی بنیادی غذا ہے۔ یہ ویسے تو مختلف قسم کی جنگلی بوٹیاں کھا لیتا ہے لیکن صنوبر، شاہ بلوط، دفران اس کی مرغوب غذائیں ہیں۔ اس کی غذا کی ایک منفرد بات یہ ہے کہ یہ سردیوں میں تو درختوں کے پتے کھاتا ہے جبکہ گرمیوں اور بہار کے موسم یہ گھاس کو پسند کرتا ہے۔ مارخور کی عادات دوسرے جانوروں سے قدرے مختلف ہوتی ہیں۔ نر مارخور جب پیٹ بھر کر خوراک کھا لیتے ہیں تو یہ آپس میں اپنے سینگ پھنسا کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مادہ جانور ان سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ مادہ مارخوروں میں یہ خصلت بہت مشترک ہے کہ یہ اپنے مادہ بچوں کے ساتھ ریوڑ کی شکل میں رہنا پسند کرتی ہیں جبکہ نر مارخور ان سے بالکل مختلف ہوتے ہیں اور وہ عموماً اکیلا رہنا پسند کرتے ہیں۔
مار خور پالتو بکروں کا جد امجد:
اکثر شکاریوں کو اس بحث میں اُلجھتے دیکھا گیا ہے کہ مارخور کے جد امجد کا تعلق کہاں سے ہے۔ تاریخ کی کتب سے جو شواہد ملے ہیں ان کے مطابق یہ جنگلی جانور صدیوں سے پہاڑوں اور جنگلوں میں دیکھا جاتا رہا ہے۔ پالتو اور گھریلو بکرے دراصل مارخور خاندان اور پہاڑی بکروں کی آپس میں افزائش نسل کا نتیجہ ہیں۔ بعض مصنفین نے تو چند مصری نسل کے بکروں کو بھی ان کے سینگوں کی مشابہت کے باعث مارخور کے خاندان کے اجداد سے ہی قرار دیا ہے۔ چترال، لداخ اور تبت وغیرہ میں پائی جانے والی نایاب نسل ”پشمینہ‘‘ بکریوں کا تعلق بھی بعض روایات کے مطابق مارخور خاندان سے ہی جوڑا جاتا ہے۔ سسلی میں بکریوں کی معروف نسل ”گرگنٹانہ‘‘ اور آئرلینڈ میں بکریوں کی نسل ”ہلبری‘‘ جو عادات و اطوار اور شکل میں مارخور سے بہت مشابہت رکھتی ہیں ان کے بارے بھی غالب گمان یہی ظاہر کیا جاتا ہے کہ ان کا تعلق مارخور کے خاندان سے ہی جا ملتا ہے۔
اقسام :
دنیا بھر میں اس کی پانچ مستند اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سے تین پاکستان میں بھی پائی جاتی ہیں۔ جن کو استور، سلیمان اور کشمیر مارخور کے نام سے جانا جاتا ہے۔” استور مارخور‘‘یہ پاکستان میں چترال، گلگت بلتستان، کوہستان، وادی ہنزہ، ودای جہلم میں بھی پایا جاتا ہے۔ ”سلیمان مارخور‘‘ یہ پاکستان کے سلسلہ کوہ سلیمان میں پایا جاتا ہے۔ ”کشمیر مارخور‘‘ یہ چترال کے علاقوں میں نظر آتا ہے۔
نسل کو لاحق خطرات:
مارخور کے بارے عالمی تنظیم ”بین الاقوامی اتحاد برائے تحفظ قدرت‘‘ (آئی یو سی این) نے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ مارخور کی نسل تیزی سے معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔اگر بروقت مناسب اقدامات نہ کئے گئے تو مارخور جس کا وجود جو معدومیت کے قریب ہے ناپید ہو جائے گا۔ اس تنظیم نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ ان کی معلومات کے مطابق اب اس نایاب جانور کی تعداد محض چند ہزاروں تک محدود ہو چکی ہے۔
کم ہوتی نسل کی وجوہات :
محکمہ جنگلی حیات کے ایک سروے کے مطابق2019ء میں ملک میں مارخور کے سب سے بڑے مرکز نیشنل گول پارک چترال میں اس قومی جانور کی تعداد 2800 تھی جبکہ 2020ء میں یہ تعداد کم ہو کر 2ہزارتک رہ گئی تھی۔ ایک غیر سرکاری سروے کے مطابق کم ہوتی تعداد کی وجوہات میں نیشنل پارک میں حفاظت پر مامور وہ نگہبان ہیں جو فنڈز میں کمی کے باعث تنخواہیں نہ ملنے پر خود ہی ان جانوروں کا غیر قانونی شکار کرنے لگ گئے ہیں۔
گول نیشنل پارک چترال میں مارخور کی کم ہوتی نسل بارے علاقے کے عمائدین کے بقول یہاں سے ایک معقول تعداد ان جانوروں کی ہر سال افغانستان ہجرت کر جاتی ہے۔ مارخور کے تناسب کے لحاظ سے گول نیشنل پارک کا رقبہ کم ہے۔ ورلڈ بنک کے بنائے گئے منصوبے کے مطابق گول نیشنل پارک میں مارخوروں کی تعداد 425 ہونی چاہئے۔
ان کی کم ہوتی نسل کی بڑی وجہ ان کا غیر قانونی شکار بھی ہے کیونکہ مارخور کا گوشت جو ذائقہ کے اعتبار سے اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اپنی مانگ کے سبب یہ اس وقت مہنگے داموں فروخت ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے سینگ جو نمائشی اور آرائشی سامان بنانے کے کام آتے ہیں اس وقت بھی بین الاقوامی مارکیٹ میں ان کی بہت مانگ ہے۔ یہی حال اس کی کھال کا ہے بین الاقوامی مارکیٹ میں جس کی خاصی مانگ ہے۔
*خاورنیازی لاہور میں مقیم ایک سابق بینکر اور لکھاری ہیں، قومی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک رہ چکے ہیں، تحقیقی اور سماجی موضوعات پر مہارت رکھتے ہیں.*