ایک قانون مکافات عمل ہے
ظالم
آج جو کرتا ہے تو سامنے کل آئے گا
18/10/2024
دنیا میں کیے جانے والے ہر عمل کا بدلہ ضرور ملتا ہے، اس کو ہم “مکافات عمل” کہتے ہیں۔ آپ نیکی اور اچھائی کریں گے تو بدلے میں اللہ کی طرف سے بھلائی یا اجر پا لیں گے، کسی کے ساتھ ظلم یا زیادتی کریں گے تو سزا بھی یقینی ہے۔ گناہ کی سزا اور نیکی کا بدلہ اس دنیا میں تو ملتے ہی ہیں، آخرت کے لئے بھی محفوظ رہتے ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے (بھی) دیکھ لے گا۔
(سورۃ الزلزال : آیات #7- 8 )
دل دکھانا، حق مارنا، دھوکہ دینا، ظلم کرنا اور بہت سارے برے کام ہم کرتے جاتے ہیں، جانتے ہوئے بھی کہ یہ دنیا دارالعمل ہے اور کوئی عمل ایسا نہیں جس کی جزا یا سزا نہ رکھی گئی ہو۔
بچپن میں ہم سب نے بہت ساری سبق آموز کہانیاں پڑھی بھی تھیں اور سنی بھی، جیسا کرو گے ویسا بھرو گے، آج جو بو گے وہی کل کاٹو گے، جیسی کرنی ویسی بھرنی، وغیرہ وغیرہ۔ آئیے ماضی کی ان یادوں کو تازہ کریں اور کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کہتے ہیں ایک عورت نے کسی سے انتقام لینے کے لیے اسے کھانا بھیجا جس میں زہر ملا ہوا تھا، اس شخص نے سفر پر جانا تھا اور کھانا ساتھ رکھ لیا۔ سفر میں جب بھوک لگی اور وہ کھانا کھانے بیٹھا تو اسے ایک بھوکا آدمی نظر آیا۔
اس نے وہ کھانا اسے دے دیا، بھوکے نے کھانا کھایا اور زہر کی وجہ سے مر گیا۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ اسی عورت کا بیٹا تھا جس نے کھانا دیا تھا اور سفر کے بعد اپنی ماں کے پاس جا رہا تھا۔ اس کہانی میں دو نصیحتیں بیک وقت موجود ہیں، برائی کی سزا اور نیکی کا اجر، جس عورت نے کسی کے ساتھ برا کیا تو نقصان اس کا اپنا ہو گیا اور مسافر نے نیکی کرتے ہوئے بھوکے کا پیٹ بھرنے کا سوچا تو اس کی اپنی جان بچ گئی۔
حقوق کی بہت ساری اقسام ہیں اور کسی کا کوئی بھی حق مارنا مکافات عمل کو دعوت دینا ہے۔ موضوع کی مناسبت سے مجھے نظیر اکبر آبادی کی نظم یاد آ رہی ہے جس کے کچھ اشعار پیش خدمت ہیں.
نقصان کرے نقصان ملے احسان کرے احسان ملے
جو جیسا جس کے ساتھ کرے پھر ویسا اس کو آن ملے
کچھ دیر نہیں اندھیر نہیں انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو اس ہاتھ ملے یہاں سودا دست بہ دستی ہے
کوئی برا عمل ایسا نہیں جس کی سزا نہ ہو اور کبھی کبھی برائی اور سزا کے وقت میں فاصلہ زیادہ نہیں ہوتا ہے۔
جزا اور سزا کے علاوہ اللہ کی طرف سے امتحان بھی ایک حقیقت ہے، یہ الگ بات ہے ہم گناہگار اپنے مکافات عمل اور سزاؤں کو قفل لگے دل اور دماغ کی وجہ سے آزمائش کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں۔ بہت دفعہ ہم نے ظالموں کو بہترین زندگی گزارتے دیکھا ہے اور مظلوم کی زندگی ظلم سہتے ہوئے گزر رہی ہوتی ہے۔
یہ ظالم کے لئے وہ عارضی عیش ہے جو اس کی رسی دراز کر کے اللہ توبہ اور تلافی کا موقع دے رہا ہوتا ہے اور مظلوم کی مظلومیت آئندہ کی بہترین زندگی کی بشارت ہوتی ہے۔ اس لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دیر یا جلد، سزا اور جزا یقینی ہیں۔
حاصل کو رلانا اور لا حاصل کو رونا ہمارے معاشرے میں بہت عام سی بات ہے۔ دل دکھانا گناہ کبیرہ ہے، آج کوئی کسی کا دل دکھائے اور اس کا اپنا دل نہ دکھے یہ ممکن نہیں، بعض دفعہ سزا خود کو براہ راست نہ بھی ملے تو اولاد کی تکلیف کی صورت میں مل جاتی ہے اور اولاد کی تکلیف سے بڑی سزا کیا ہو سکتی ہے۔ اسے یوں سمجھیں کہ ایک بیٹی کو جب اس کے سسرال میں تکلیف دی جاتی ہے تو اس کی سزا ظالم کے آگے اس کی اپنی بیٹی کی مشکلات کی شکل میں یا کسی اور قریبی رشتے کی تکلیف کی صورت میں سامنے ضرور آتی ہے، اب اس کو آزمائش کہہ کر خود کو دھوکا دے لیں یا سزا کو جان کر توبہ کر لیں، فیصلہ آپ کا ہے۔
عمل کا رد عمل وقت کا جواب ہوں میں
قبول کیجئے قدرت کا انتخاب ہوں میں
بہت شکریہ…