جو ہمارے امتیوں کو دھوکہ دے اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں

06/10/2024

(فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم)

دھوکہ کا ایک ایسا قبیح اور ناپسندیدہ عمل ہے جسے ہر صورت میں اسلام نے ناجائز و حرام قرار دیا ہے اور ایسا کرنے والوں کی شدید الفاظ میں مذمّت بیان کی ہے۔ ویسے تو دھوکہ زندگی کے کسی بھی معاملے میں جائز نہیں لیکن لین دین اور خرید و فروخت کے معاملے میں تنبیہہ کے ساتھ اِس کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔ حدیث میں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم نے فرمایا، جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس شخص نے کوئی عیب دار چیز کسی کو فروخت کی اور خریدار پر عیب کو ظاہر نہیں کیا تو اُس پر ہمیشہ ﷲ تعالیٰ کا غضب رہے گا اور ﷲ تعالیٰ کے فرشتے ہمیشہ اُس پر لعنت کرتے رہیں گے۔

عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ فروخت کنندہ اپنے خریدار کی کم علمی اور سادگی سے فائدہ اُٹھا کر اور اِس خوف سے کہ اگر اصلیت خریدار کو بتادی جائے تو وہ مال نہیں خریدے گا، اپنی ناقص اور عیب دار چیز فروخت کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے خریدار کو نہ صرف مالی نقصان بلکہ ذہنی کوفت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چوں کہ اسلام کا یہ بنیادی اُصول ہے کہ نہ کسی کو نقصان پہنچاؤ اور نہ ہی کسی سے نقصان اُٹھاؤ، یعنی نہ کسی کو دھوکا دو نہ ہی کسی سے دھوکا کھاؤ۔

اور چونکہ کسی چیز کے عیب کو ظاہر کیے بغیر فروخت کرنا دوسرے کو نقصان پہنچانا ہے لہٰذا اِسے ناجائز قرار دیا گیا اور ایسا کرنے والے کو یہ وعید سنائی گئی کہ اُس پر ﷲ تعالیٰ غضب فرماتا رہے گا اور ایسے شخص پر اُس کے مقرّب فرشتوں کی لعنت برستی رہے گی۔ ایک مسلمان کے لیے اِس سے بڑھ کر تازیانہ اور کیا ہوگا کہ اُس کا ربّ اُس سے ناراض ہوجائے۔

جب اشیاء کی خرید و فروخت کے لئے اتنی تنبیہہ کی گئی ہے کہ بیچنے والا اپنی چیز کی خرابی یا عیب نہ چھپائے تو سوچیں اپنے بچوں کے رشتے کرتے وقت اچھے اور شریف گھرانے میں رشتہ کیوں چاہتے ہیں، جبکہ اپنا سکہ ہی کھوٹا ہو؟؟ یہ سوچ کہ شادی کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا… انتہائی احمقانہ سوچ ہے. اپنے بگڑے بچے کے لیے کسی سائیکیٹرسٹ کی خدمات حاصل کیجئے نہ کہ کسی کے گھر کے چشم و چراغ کو اس غیر مساوی اور غیر ذمہ دارانہ رشتے کی بھینٹ چڑھایا جائے.

والدین جب اپنے لڑکے یا لڑکی کی شادی کراتے ہیں تو اِس بات کا بھر پور خیال رکھتے ہیں کہ اُن کی شادی شدہ زندگی پُرسکون اور خوشگوار ہو۔ اِس بات کو یقینی بنانے کیلئے رشتہ جوڑنے سے پہلے وہ مکمل چھان بین اور چھان پھٹک کرتے ہیں اور اس کے بعد ہی رشتہ طے کرتے ہیں. بعض اوقات قریبی رشتہ دار آپس میں اپنے بچوں کے رشتے طے کر لیتے ہیں، “اپنے ہیں” یہ سوچ کر لڑکے یا لڑکی کے بارے میں زیادہ تفصیل میں نہیں پڑتے، جو نہایت غلط ہی نہیں بلکہ اپنے بچے کی حق تلفی بھی ہے.  

ہم سب کا یہ ماننا ہے کہ اولاد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے، لہٰذا شکرانِ نعمت کے طور پر اُس کی قدردانی بھی ضروری ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب اولاد اِس قدر عظیم ہے تو ہم اس کی عظمت کی پاسداری میں کیوں ناکام رہ جاتے ہیں کہ وہ شادی کے بعد خود پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ دو خاندانوں کی اذیت کا ذریعہ بھی بن جاتے ہیں؟ آخر کمی کہاں رہ جاتی ہے کہ اولاد جیسی نعمت ہماری زندگی کےلئے زحمت بن جاتی ہے؟ اِس تعلق سے سب سے اہم نکتہ جس کی جانب سماج کے مصلحین نے رہنمائی کی ہے وہ یہ ہے کہ والدین یا سرپرست کسی نہ کسی درجہ میں اور کہیں نہ کہیں ان لڑکے لڑکیوں کی مناسب تربیت میں ناکام رہ جاتے ہیں جس کی وجہ سے زندگی کا وہ مرحلہ جس کو خوشی کا استعارہ ہونا چاہئے؛ ناخوشگواریوں کی علامت بن جاتا ہے۔ 
والدین اپنے بچوں کے اچھے/ برے رویوں اور ان کے تمام سرگرمیوں (چاہے پھر وہ علانیہ ہوں یا چھپ چھپاتے) کو یقیناً جانتے ہوتے ہیں، بس ان کے عیبوں پر پردہ رکھتے ہوئے رشتہ کر دیتے ہیں. ایسے والدین جو اپنے بچوں کے عیبوں کو چھپاتے ہوں یا انہیں عیب ہی نہ سمجھتے ہوں… اللہ تعالی کی طرف سے تا قیامت لعنت کے حقدار ہوتے ہیں.

حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بیواؤں اور یتیموں کے حقوق کے بارے میں بار ہا فرمایا… ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو… یتیم کے سر پر دست شفقت رکھو. اپنی دو انگلیاں اکھٹی جوڑ کر صحابہ کو بتایا کہ قیامت کے دن میں اور وہ شخص جس نے یتیم کی اچھے سے پرورش کی اور اسے شفقت کی نگاہ سے دیکھا جیسے وہ اپنی سگی اولاد کو دیکھتا ہے تو وہ میرے ساتھ جنت میں ایسے ہوگا، جیسے یہ دو انگلیاں. سبحان اللہ، نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہمیں کیا کیا تعلیم نہیں دے گۓ.

ﷲ تعالی ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں اسلام کے اصولوں اور ہدایات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری دنیاوی زندگی کو بہتر بسر کرنے کے ساتھ اپنی آخرت کی ابدی زندگی میں بھی کامیابی و کامرانی عطا فرمائے، آمین.