وقت کے پاوں نہیں اور رفتار غضب کی ہے

19/09/2024

رب کریم کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت ہی پیاری اور قیمتی اور نایاب نعمت وقت ہے۔ زندگی میں وقت ایک ایسی نعمت ہے جو ہر انسان کو یکساں ملتی ہے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ غریب کے لئے دن و رات میں 24 گھنٹےہیں اور امیر کے لیے دن اور رات میں 26 گھنٹے ہیں ۔ اور اب ہم انسان پر یہ مُنحصر ہےکہ ہم ان اوقات کی قدر کرتے ہیں یا ہم اپنے وقت کو اپنے ہاتھوں سے آپ برباد کرتے ہیں۔
دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوئے، جنہوں نے وقت کی قدر کی۔ دنیا کی ہر کھوئی ہوئی چیز واپس مل جاتی ہے مگر وقت نہیں۔ گزرا ہوا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔

وقت اللہ تعالیٰ کی ایک عظیمُ شان نعمت اور قیمتی سرمایہ ہے۔ اس کی ایک ایک گھڑی اور ہرسیکنڈ اور منٹ اتنا قیمتی ہے کہ ساری دنیا بھی اس کی قیمت ادا نہیں کرسکتی۔

آج ہم وقت کی کوئی قدر نہیں کرتے یوں ہی فضول باتوں میں اور بن مقصد کاموں میں اپنے وقت کو ضائع کر دیتے ہیں.
وقت پگھلتی برف کی طرح آناً فاناً گذرتا رہتا ہے، دیکھتے ہی دیکھتے تیزی کے ساتھ مہینے اور سال گذر جاتے ہیں۔

وقت کی قدردانی بہت ضروری ہے، وقت کو صحیح استعمال کرنا، بیکار اور فضول ضائع ہونے سے بچانا ازحد ضروری ہے، وقت کو فضول ضائع کردینے پر بعد میں جو حسرت و پچھتاوا ہوتا ہے وہ ناقابل تلافی ہوتا ہے۔ سوائے ندامت کے اس کے تدارک کی کوئی صورت نہیں رہتی۔ جو لمحہ اور گھڑی ہاتھ سے نکل گئی وہ دوبارہ ہاتھ میں نہیں آسکتی، لہٰذا عقلمندی کا کام یہ ہے کہ آغاز ہی میں انجام پر نظر رکھے، تاکہ حسرت و پچھتاوے کی نوبت نہ آئے۔

ہے وہ عاقل جو کہ آغاز میں سوچے انجام ورنہ نادان بھی سمجھ جاتا ہے کھوتے کھوتے

آ ج ہمارے معاشرے میں سب سے سستی اور بے قیمت چیز اگر ہے تو وہ نظم و ضبط کی کمی اور وقت کی ناقدری ہے، اس کی قدر و قیمت کا ہمیں قطعاً احساس نہیں، یہی وجہ ہے کہ وقت کے لمحات کی قدر نہ کر نے سے منٹوں کا، منٹوں کی قدر نہ کر نے سے گھنٹوں کا ،گھنٹوں کی قدر نہ کرنے سے ہفتوں کا، ہفتوں کی قدر نہ کر نے سے مہینوں کا، اور مہینوں کی قدر نہ کر نے سے سالوں اور عمروں کا ضائع کرنا ہمارے لیے بہت آسان بن گیا ہے۔

حضرت عبدﷲ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :’’دو نعمتوں کے بارے میں اکثر لوگ خسارے میں رہتے ہیں : صحت اور فراغت۔‘‘ (صحیح بخاری، سنن ترمذی) اللہ تعالیٰ انسان کو جسمانی صحت اور فراغت اوقات کی نعمتوں سے نوازتا ہے تو اکثر سمجھتے ہیں کہ یہ نعمتیں ہمیشہ رہنی ہیں اور انہیں کبھی زوال نہیں آنا، حالانکہ یہ صرف شیطانی وسوسہ ہوتا ہے۔

لہٰذا انسان کو ان عظیم نعمتوں کی قدر کرتے ہوئے انہیں بہتر استعمال میں لانا چاہیے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:’’قیامت کے دن بندہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کھڑا رہے گا جب تک کہ اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے :
1۔ اس نے اپنی زندگی کیسے گزاری؟
2۔ اپنے علم پر کتنا عمل کیا؟
3۔ مال کہاں سے کمایا اور کیسے خرچ کیا؟
4۔ اپنا جسم کس کام میں کھپائے رکھا؟‘‘(جامع ترمذی)۔

حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اگر قیامت قائم ہوجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا چھوٹا سا پودا ہو تو اگر وہ اس بات کی استطاعت رکھتا ہو کہ وہ حساب کے لئے کھڑا ہونے سے پہلے اسے لگا لے گا تو اسے ضرور لگانا چاہیے۔‘‘(مسند احمد بن حنبل)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کس قدر وقت کی اہمیت اور اعمال صالحہ کا احساس دلا رہے ہیں کہ اگر قیامت قائم ہو جائے اور کوئی اس نفسا نفسی کے عالم میں بھی ذرہ بھر نیکی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو تو اس میں بھی غفلت کا مظاہرہ نہ کرے، بلکہ فوراً نیکی کر ڈالے۔ حضرت عبد ﷲ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:’’ پانچ نعمتوں کو ان کے کھونے سے قبل غنیمت سمجھو ، زندگی کو مرنے سے پہلے اور صحت کو بیماری سے پہلے اور فراغت کو مشغولیت سے پہلے، اور جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، اور مال داری کو فقر سے پہلے۔(مستدرک حاکم)
آج جوانی کا سنہرا دور ملا ہوا ہے، کل بڑھاپے میں نہ جانے کن احوال سے سابقہ پڑے اور کیا امراض و عوارض لگ جائیں آج صاحبِ حیثیت ہیں، کل پتا نہیں کیا حالت ہو جائے؟ اس لیے جو کر نا ہے کرلیا جائے، جو کمانا ہے کمالیا جائے، جو فائدہ اٹھانا ہے اٹھالیا جائے، ورنہ’’وقت دو دھاری تلوار ہے‘‘، اگر تم نے اسے نہ کاٹا، وہ تمہیں کاٹ ڈالے گی،ارشاد نبویؐ ہے :صحت اور فراغت دو ایسی عظیم نعمتیں ہیں، جن کے سلسلے میں بے شمار لوگ خسارے میں رہتے ہیں، اس لیے بعد میں پچھتانے سے یہ بہتر ہے کہ انسان آج ہی قدرکر لے۔(بخاری، ترمذی)
حضرت ابوذرؓ نے روایت کیا ہے ’’مومن صرف تین چیزوں کا آرزو مند ہوتاہے:
(۱) توشہ آخرت کی فراہمی.
(۲) معاش کے لئے تگ و دو.
(۳) حلال چیزوں سے لطف اندوزی.
اس حدیث سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ہر ایک مسلمان کو اپنے اوقات کس انداز میں ترتیب دینے چاہئیں اور ایک مومن و مسلم سے اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ اپنے اوقات کو یا تو عبادت میں لگائے، اور اس کے بعد معاش کے حصول میں صرف کرے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے فرائض کے بعد جو فریضہ انسان پر عائد ہوتا ہے، وہ حلال کمائی کا حصول ہے اور اس کے بعد جو وقت بچے، وہ اسے جائز تفریحات میں صرف کرے.
سورۃ العصر ہمیں پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ ہم اپنی زندگی اور وقت کی اہمیت کو سمجھیں اور زندگی یوں گزاریں کہ ہمارے پاس توحید ہو، ایمان ہو اور نیک اعمال ہوں. ہم قرآن اور حدیث و سنتوں کے پابند ہوں، نیک کام خود کریں اور دوسروں کو بھی نیکی کی دعوت دینے والے بنیں۔ اگر ہم ایسا عمل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ان شاءاللہ ہمارا شمار بھی ان لوگوں میں ہوگا جو اللہ پاک کے فضل و کرم میں ہوں گے۔ اور یہ سب وقت کی قدر دانی میں پنہاں ہیں۔

ہمیں چاہئے کہ ہم وقت کی قدر کریں اور اسے نیک کاموں میں صرف کریں تاکہ دونوں جہاں کی کامیابی ہمارا مقدر بن سکے۔

اللّہ سُبحان تعالیٰ ہمیں وقت جیسے انمول ہیرے کی قدر کرنے اور اس کا درست استعمال کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین یا ربّ العالمین.