میر عثمان علی خان نے پورے برصغیر کے اسلامی، تعلیمی اور سماجی اداروں کی سرپرستی کی

03/09/2024

 علی گڑھ یونیورسٹی کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی،جب علی گڑھ یونیورسٹی بنی تو اُن کو اس کا پہلا چانسلر منتخب کیا گیا۔ سلطان العلوم کی ڈگری عطا کی گئی.
میر عثمان علی خان نے مدینہ میں مسجد نبوی، خانہ کعبہ میں پہلے جنریٹر نصب آلہ بجلی فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ ملک میں رباط سرائے بنائی، جس میں برصغیر کے حاجیوں کے قیام کا انتظام کیا گیا تھا۔ حیدرآباد میں ایک ہوٹل، بلڈنگ مدینہ مینشن بنائی اور ایک ٹرسٹ بنایا، اس کی آمدنی سے مکہ، مدینہ اور حاجیوں کے اخراجات پورے ہوتے تھے۔ 1919ء میں تحریک فلائٹ شروع ہوئی۔ مولانا شوکت علی کے کہنے پر میر محبوب علی نے معزول خلیفہ ترکی سلطان عبدالحمید کی صاحبزادیوں کی شادیاں اپنے بیٹوں سے کیں اور سلطان کا بھی وظیفہ مقرر کیا۔
قیام پاکستان کے بعد پاکستان کو 20 کروڑ روپے کا عطیہ دیا، تاکہ یہاں کے اخراجات سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا ہوں۔ حیدر آباد کےعوام اور حیدرآباد ٹرسٹ کے لیے بھی معقول رقم عطا کی، جس سےمہاجروں کی آبادکاری اور روزگار آسان ہوا۔ 12 ستمبر 1948ء کو انڈیا نے ریاست پر حملہ کیا اور17ستمبر کو قبضہ کیا۔ 26فروری 1967ء کو آپ کا انتقال ہوا۔
آپ کے جنازے میں تقریباً پورا حیدر آباد شامل ہوا۔ انگریز اخبارات کے صحافی حیراں رہ گئے اور سرخی لگائی کہ اس ملک میں جمہوریت کیسے آسکتی ہے، جس میں 25 سال گزرنے کے باوجود بادشاہ کو یاد کیا جاتا اور اس کا احترام کیا جاتا ہو۔ ایسے موقع پر مجھے نواب بہادر یار جنگ کا تاریخی جملہ یاد آتا ہے۔ وہ کہتے تھے’’ اعلی حضرت میر عثمان علی خان کی بادشاہت آج کل کی جمہوریت سے سو گنا بہتر ہے۔‘‘
میر عثمان علی خان نے دلوں پر حکومت کی، درویشی کی ،لیکن علوم کی سرپرستی کی۔ جامعہ عثمانیہ، جامعہ نظامیہ دارالترجمہ، آصیفہ کتب خانہ قائم کیا۔ ہزارہا لوگوں کو وظائف دیئے۔ آپ کی سرپرستی کے حوالے سے ڈاکٹر دائود اشرف اور پروفیسر شفقت رضوی کی کتب گواہ ہیں، جن میں دستاویزات کے ثبوت کے تحت بتلایا گیا کہ ہزارہا علماء اورمشاہیر کو سرکاری خزانے سے امدادی دی جاتی تھی۔ ہزارہا مدرسوں کا مالی تعاون کیا جاتا تھا۔
آج ملک پاکستان کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں۔ تعلیمی، اخلاقی زبوں حالی عروج پر ہے۔ کرپشن ہے، نجی تعلیمی ادارے لاکھوں کی فیس مانگتے ہیں، سرکاری تعلیمی اداروں میں چوری عام ہے۔ ایسے میں تعلیم کا حصول کیسے ممکن ہو؟ آج بھی لوگ سلطان العلوم اور سرسید جیسے اشخاص کے منتظر ہیں۔