سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا گھر مسجد نبوی کے ساتھ تھا اور

23/07/2024

سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا گھر مسجد نبوی کے ساتھ تھا اور
اس مکان کا پرنالہ مسجد کی طرف تھا
جب بارش ہوتی تو پرنالہ سے پانی گرتا جس کے چھینٹے نمازیوں پر پڑتے
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نمازیوں پر
چھینٹے پڑتے دیکھے تو پرنالے کو اکھاڑ پھینکا
سیدنا عباس آئے۔۔۔ دیکھا ان کے مکان کا پرنالہ اتار دیا گیا ہے۔
پوچھا یہ کس نے اتارا؟ جواب ملا ۔۔۔
امیر المومنین نے نمازیوں پر چھینٹے پڑتے دیکھے تو اسے اتار دیا
سیدنا عباس نے قاضی کے سامنے مقدمہ دائر کر دیا۔
امیر المومنین ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پیش ہوئے تو جج صاحب لوگوں کے مقدمات سن رہے ہیں
اور سیدنا عمر عدالت کے باہر انتظار کر رہے ہیں
کافی انتظار کے بعد جب سیدنا عمر عدالت کے روبرو پیش ہوئے تو بات کرنے لگے، مگر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے
روک دیا کہ پہلے مدعی کا حق ہے کہ وہ اپنا دعوی پیش کرے یہ عمر کے دور کا چیف جسٹس ہے۔
سیدنا عباس دعوی پیش کرتے ہیں کہ میرے مکان کا پرنالہ شروع سے مسجد نبوی کی طرف تھا
زمانہ نبوی کے بعد
سیدنا ابوبکر کے دور میں بھی یہی رہا
لیکن عمر نے میرے مکان کا پرنالہ میری عدم موجودگی میں میری اجازت کے بغیر اتار دیا ہے
لہذا مجھے انصاف چاہیے
چیف جسٹس ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں
آپ بے فکر رہیں آپ کو انصاف ملے گا
قاضی نے سیدنا عمر سے پوچھا آپ نے سیدنا عباس کے گھر کا پرنالہ کیوں اتارا
بائیس لاکھ مربع میل کا حاکم کٹہرے میں کھڑا ہو کر کہتا ہے سیدنا عباس کے مکان کا پرنالہ مسجد نبوی کی طرف تھا
جب بارش ہوتی ہے پرنالے سے پانی بہتا ہے اور چھینٹے نمازیوں پر پڑتے ہیں جس سے نمازیوں کو پریشانی ہوتی ہے اس لیے میں نے اسے اتار دیا
آبی بن کعب نے دیکھا کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کچھ کہنا چاہ رہے ہیں پوچھا
آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔۔۔
سیدنا عباس کہتے ہیں یہ جس جگہ میرا مکان ہے، یہاں رسول کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چھڑی سے مجھے نشان لگا کر دیا اور میں نے اسی جگہ مکان بنایا پھر جب پرنالہ نصب کرنے کا وقت آیا تو
رسول پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛
چچا میرے کندھے پر کھڑے ہو کر اس جگہ پرنالہ نصب کر دیں میں نے نبی پاک کے کندھے پر کھڑا ہونے سے انکار کیا
مگر بھتیجے کے اصرار پر میں نے ان کے کندھے پر کھڑا ہو کر یہاں پرنالہ نصب کیا
یہاں پرنالہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود لگوایا تھا۔
ابی بن کعب نے پوچھا۔۔۔ اس کا کوئی گواہ ہے، آپ کے پاس؟
سیدنا عباس جلدی سے باہر گئے اور کچھ انصار کو لے کر آئے انہوں نے گواہی دی
کہ سیدنا عباس سچ کہہ رہے ہیں
یہ سنتے ہی سیدنا عمر کے ہوش اڑ گئے۔۔۔ اور رونے لگے۔۔۔ آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔۔۔
اپنے پیارے نبی یاد آ گئے۔۔۔ اور زمانہ نبوی کا منظر نظروں میں گھوم گیا۔
عدالت میں سب کے سامنے یہ بائیس لاکھ مربع میل کا حاکم سر جھکائے کھڑا ہے۔
جس کا نام سن کر قیصر و کسری کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو جاتا تھا
سیدنا عباس سے کہا مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ پرنالہ رسول پاک نے خود لگوایا ہے
آپ چلیے میرے ساتھ جیسے رسول پاک نے یہ پرنالہ لگوایا تھا ویسے ہی آپ لگائیں
چشم کائنات نے دیکھا
وقت کا حاکم
دونوں ہاتھ مکان کی دیوار سے ٹکا کر کھڑا ہو گیا بالکل اسی طرح جیسے رسول پاک کھڑے ہوئے تھے۔
سیدنا عباس امیر المومنین کے کندھوں پر کھڑے ہوئے
اور دوبارہ اسی جگہ پرنالہ لگا دیا۔
وقت کے حاکم کا یہ سلوک دیکھ کر سیدنا عباس نے مکان مسجد نبوی کو وقف کر دیا
(باب السلام سے داخل ھوں تو دائیں جانب دیوار میں چودہ سو سال گزرنے کے باوجود آج بھی اس پرنالے کے مقام کی نشاندھی موجود ھے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
أخرجه أحمد بن حنبل
في المسند، 1 / 210، الحديث رقم : 1790
(محض نقل کیا ہے )