تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں

16/07/2024

تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں

شاد عظیم آبادی

تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں

کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں

ہوں اس کوچے کے ہر ذرے سے آگاہ

ادھر سے مدتوں آیا گیا ہوں

نہیں اٹھتے قدم کیوں جانب دیر

کسی مسجد میں بہکایا گیا ہوں

دل مضطر سے پوچھ اے رونق بزم

میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں

سویرا ہے بہت اے شور محشر

ابھی بے کار اٹھوایا گیا ہوں

ستایا آ کے پہروں آرزو نے

جو دم بھر آپ میں پایا گیا ہوں

نہ تھا میں معتقد اعجاز مے کا

بڑی مشکل سے منوایا گیا ہوں

لحد میں کیوں نہ جاؤں منہ چھپا کر

بھری محفل سے اٹھوایا گیا ہوں

عدم میں کیوں نہ جاؤں منہ چھپائے

بھری محفل سے اٹھوایا گیا ہوں

کجا میں اور کجا اے شادؔ دنیا

کہاں سے کس جگہ لایا گیا ہوں