پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ
29/06/2024
یکم جولائی سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 10 روپے تک اضافے کا امکان ہے۔ پیٹرول کی قیمت میں 7.54روپے فی لیٹر اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 9.84 روپے فی لیٹر اضافے کا امکان ہے۔
اکثر ایسی خبریں ہماری نظروں سے گزرتی رہتی ہیں۔ کبھی خبر آتی ہے پٹرول 3 روپے سستا ہو گیا۔۔۔ کچھ دن گزرتے نہیں کہ یک دم ریٹ کا گراف بڑھ گیا۔ کم یا زیادہ ہونے کی یہ آنکھ مچولی کے کھیل نے ہر طبقے کو پریشان کیا ہوا ہے۔ پٹرول مہنگا سمجھو جینا مہنگا۔۔۔ اشیائے خورد و نوش، یوٹیلیٹی بلز، کپڑے، کھیلوں کا سامان، پڑھائی، کرائے غرض ضروریات زندگی نبھانا ایک پہاڑ سر کرنے کے مترادف ہو جاتا ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ مہنگائی ہر دور میں رہی اور نئے نئے حکمرانوں کے دعوؤں کے باوجود روز بروز بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ غریب تو بیچارہ مکمل طور پر مر گیا۔ امیر ہمیشہ سے امیر ترین تھا مگر مڈل کلاس طبقہ دفن ہو چکا۔ مہنگائی سے جہاں عام انسان کی زندگی مفلوج ہوتی ہے وہاں مخیر حضرات کی خدمت خلق بھی متاثر ہوتی ہے۔ صدقہ جاریہ پر خرچ کی جانے والی رقم میں کمی آتی ہے۔ غریب کے رفاعی و فلاحی کام سست روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ فی سبیل اللہ لنگر اور دسترخوانوں کی رونقیں سونی ہو جاتی ہیں۔ پاکستان میں ہمارا تمام وقت عوام الناس کے مسائل دیکھتے سنتے اور نبٹتے گزرتا ہے۔
مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور ان کی قوت خرید ختم ہوتی جا رہی ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ عوام کے حقوق کا تحفظ کرے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری نے ہر گھر میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور پڑھے لکھے نوجوانوں کے لئے ملک میں روزگار کا سلسلہ نہ ہونے کی وجہ سے اکثر پڑھے لکھے نوجوان بیرون ملک جانے کی غیر قانونی کوشش میں جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ملک میں اس وقت بد دیانتی عروج پر ہے اور ہر محکمہ و ادارہ خطرناک حد تک کرپٹ ہو چکا ہے۔ جس میں مالی، قانونی و اخلاقی کرپشن شامل ہے۔ یہاں پر جائز کام کے لئے جان بوجھ کر تاخیری حربے اپنائے جاتے ہیں، جن سے عاجز آکر سائل عملہ کو رشوت دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اس بات کا اشارہ کر رہی ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ انسان لقمہ خوراک کو ترس جائے گا۔ اس مہنگائی نے غریب کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ اس مہنگائی سے بہت سی خطرناک برائیاں پیدا ہوئی ہیں جن میں رشوت، جسم فروشی، منشیات فروشی، چوری ڈاکے شامل ہیں۔ ہر کوئی اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ روپیہ سب سے زیادہ اس کے پاس ہو۔ ہر کوئی اس ہوس کو پورا کرنے کے لیے دوسروں کی کھال ادھیڑ رہا ہے۔ روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر نے بھی مہنگائی کے طوفان کو سونامی میں بدل دیا ہے۔ درآمد کنندگان میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کا براہِ راست اثر ان اشیاء کی قیمتوں پر ہوتا ہے جو بیرونِ ملک سے درآمد کی جاتی ہیں اور ان تمام اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان پر بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف اور عالمی بنک کے قرضوں کا حجم بھی بڑھ جاتا ہے۔ ایسے میں بہترین حل یہی ہے کہ برآمدات کی ترسیل بند کی جانی چاہیے اور ملکی اشیاء کو فروغ دینا چاہئے۔ لیکن ہمارا mind set ایسا المیہ ہے کہ جب تک کسی چیز پر imported کا لیبل نہ لگا ہو ہم اسے کسی کھاتے میں لاتے ہی نہیں۔ ہمیں اپنے گھر کے لئے، ملک کے لئے اجتماعی طور پر بہت سی اصلاحات کرنی پڑیں گی۔۔۔ ہمیں سوچ و نظریات بدلنے ہونگے۔۔۔ تبھی ہمارا گھر، ہمارا ملک ترقی اور خوشحالی کی طرف گامزن ہو گا۔ سوچ بدلے گی۔۔۔ہم بدلیں گے۔۔۔ ہم بدلیں گے تو بدلے گا پاکستان، ان شاءاللہ
“اے کاش کہ ہم بھی اپنی زندگی میں کرپشن سے پاک پروقار پاکستان دیکھیں۔”