عمر گزرے گی امتحان میں کیا

29/06/2024

عمر گزرے گی امتحان میں کیا

داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا

میری ہر بات بے اثر ہی رہی

نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا

مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں

یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا

اپنی محرومیاں چھپاتے ہیں

ہم غریبوں کی آن بان میں کیا

خود کو جانا جدا زمانے سے

آ گیا تھا مرے گمان میں کیا

شام ہی سے دکان دید ہے بند

نہیں نقصان تک دکان میں کیا

اے مرے صبح و شام دل کی شفق

تو نہاتی ہے اب بھی بان میں کیا

بولتے کیوں نہیں مرے حق میں

آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

خامشی کہہ رہی ہے کان میں کیا

آ رہا ہے مرے گمان میں کیا

دل کہ آتے ہیں جس کو دھیان بہت

خود بھی آتا ہے اپنے دھیان میں کیا

وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے

اب بھی ہوں میں تری امان میں کیا

یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو

کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا

ہے نسیم بہار گرد آلود

خاک اڑتی ہے اس مکان میں کیا

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا

ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

(جون ایلیا نے تو گویا میرے الفاظ کو زباں دے دی)