عید الاضحٰی سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟
14/06/2024
کل محلّے کی گلیوں میں ٹہل کر جانور دیکھے۔۔۔ اکثر جانور صحت مند نظر آئے۔۔۔
گاؤں دیہاتوں میں سارا سال ان جانوروں کی کتنی محنت سے نگہداشت کی جاتی ہے پھر ان کے مالک ان کو شہروں میں لا کر بیچتے ہیں۔۔
بچے تن دہی سے ان کی بہترین میزبانی میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔۔۔
عیدالاضحیٰ بنیادی طور پر لڑکوں کا تہوار ہے۔
بچیاں تو بس پیچھے پیچھے پھرتی ہیں۔۔۔
کہیں بھائیوں کو چارہ تھما رہی ہیں، کہیں گائے بکری پر ہاتھ پھیر کر پیار کر رہی ہیں،کہیں بالٹی میں پانی لا رہی ہیں۔۔۔ رونق سی رونق ہے ماشاءاللہ۔
یہ جو گلیوں میں گائے، بکرے نظر آرہے ہیں ان میں نوے فیصد سے زیادہ بچوں کی ضد اور خواہش پر آئے ہیں۔ والدین استطاعت نہیں بھی رکھتے تو وہ بچوں کی ضد کے آگے سر جھکا دیتے ہیں کیونکہ “بالک ہٹ” دنیا کی مشہور ترین تین ضدوں میں سے ایک ہے۔
بچے والدین کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ یہ پورے سماج کی کہانی ہے۔
اس وقت بچے جانوروں سے پیار کر رہے ہیں۔۔۔
ان کو اپنا سمجھ رہے ہیں۔۔۔
پھر ان کو اپنی آنکھوں کے سامنے ذبح ہوتا دیکھیں گے۔۔۔
یہ کتنا اچھا وقت ہے اپنے بچوں کو اسوہ ابراہیمیؑ بتانے کا۔۔۔
اسوہ ابراہیمیؑ صرف گلے پر چھری پھیرنا نہیں ہے یہ تو ان کے کردار کی محض ایک جھلک تھی۔۔
ان کا اصل کردار تو یہ تھا کہ انہوں نے اپنے رب کو تلاش کیا تھا، بہت محنت سے ڈھونڈا تھا۔۔۔
چاند، ستاروں اور سورج کو رب سمجھنے کے بعد اپنی جستجو سے ایک بڑی ہستی کو پایا تھا۔ جب پالیا تو اس کو اپنا بنا لیا اور خود اسی کے ہو رہے۔۔۔
پھر یہ نہیں کہ کسی خانقاہ، غار یا پہاڑوں پر چلے گئے بلکہ۔۔۔۔۔
انہوں نے سماج کو چیلنج کیا، ڈنکے کی چوٹ پر بتایا کہ “تمہارے خدا جھوٹے خدا ہیں”۔
ببانگ دہل۔۔۔ وہ نو عمر نوجوان توڑ پھوڑ کر رکھ دیتا ہے ان خود ساختہ معبودوں کو۔۔۔
اور پھر طلبی پر ڈرتا ہے نہ چھپتا ہے بلکہ سینہ تان کر بتاتا ہے کہ ہاں میں نے ایسا کیا کیونکہ یہ جھوٹےخدا ہیں۔
والد حضور جو بت پرست ہی نہیں بت گر تھے بیٹے پر خفا ہوتے ہیں۔۔۔ ظاہر ہے سماج دشمنی کا بھی خوف ہوگا۔۔۔
بیٹا ان کی سخت کلامی کے باوجود” پیارے ابا جان، پیارے ابا جان” کہہ کر ہی مخاطب کرتا ہے۔ معمولی بات ہے کوئی اس جرم کی سزا کے طور پر۔۔۔ ایک نوجوان کے لیے آگ کا الاؤ تیار کیا جا رہا ہے۔
تیار کرنے والوں میں بادشاہ وقت کے ساتھ خود اس کا باپ بھی شامل ہے۔
نوجوان کسی کے پاؤں پکڑتا ہے نہ شہر سے بھاگتا ہے نہ جان بخشی کی التجا کراتا ہے کسی بااثرشخص سے۔۔۔
خوشی خوشی آگ میں کود جاتا ہے۔۔۔ پھر آگ کو حکم ہوتا ہے کہ ” قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَo”(سورہ انبیاء آیت 69) ہم نے فرما دیا اے آگ! تو ٹھندی پڑجا اور ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے سلامتی بن جا۔۔۔انگارے پھول بن گئے۔۔۔
کیوں کودتا ہے نوجوان جان بوجھ کر آگ میں؟؟؟
آج اپنے بچوں کو یہ بتانے کا وقت ہے جب وہ اپنے گائے اور بکروں کو پانی اور چارہ دے رہے ہیں۔۔۔
پھر رب کہتا ہے بیوی بچے کو تنہا چھوڑ دو۔۔۔
تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔ کبھی بھی کیا؟کیوں؟نہیں کیا۔۔۔کوئ عقلی دلیل نہیں مانگی۔۔۔
ایسے ہی تو نہیں کہتا نا رب ہر ایک کو اپنا “خلیل”۔۔۔
کتنا پیارا خاندان۔۔۔
حضرت ابراہیمؑ کے اللہ نے قرآن پاک میں فرمایا:”سَلَامٌ عَلیٰ ِِِابرَاہیم۔”۔سورہ الصّفّٰت
کتنی بڑی بات ہے کہ رب خود اپنے کسی بندے پر سلام بھیجے۔۔اسی لیے ہم درود ابراہیمیؑ میں ہر نماز میں اس سلام کا اعادہ کرتے ہیں۔۔
اپنے بچوں کو بتائیں حضرت ہاجرہؑ کا اسوہ۔۔
جب ویرانے میں پیچھے پیچھے بھاگتی ہیں اور پوچھتی جاتی ہیں کہ
۔۔ کیوں تنہا چھوڑ کے جا رہے ہیں مجھے ننھے بچے کے ساتھ۔۔۔کچھ تو بتائیں۔۔۔
حضرت ابراہیم جواب ہی نہیں دیتے تو۔۔
وہ تھک کے پھولی ہوئی سانسوں کی درمیان پوچھتی ہیں:” اچھا یہ بتا دیں کہ کیا یہ رب کا حکم ہے؟”
جب وہ کہتے ہیں “ہاں”۔۔۔ تو فورا پلٹ جاتی ہیں ان کو قرار آ جاتا ہے رب کے حکم پر۔۔۔ عورت کے صبر کی یہ عظیم مثال آج کی عورت کی سوچ کو چیلنج دیتی ہے، کیا ہے کوئی ایسی فرمانبردار جو تپتے صحرا میں بے یار و مددگار صرف اللہ کے حکم کی پاسداری میں تن تنہا اپنے شیر خوار بچے کو لئے وہیں رک جاتی ہیں۔
یہ “قرار” کا آ جانا کتنی بڑی بات ہے کہ حضرت ہاجرہؑ کے نقوشِ پا پر سارے امّتی قیامت تک دوڑتے رہیں گے۔۔۔
اگر رب کے حکم پر بیابان اور جنگل کو قبول نہ کرتیں، اسماعیلؑ کے لیے پانی کی تلاش میں صفا مروہ پر نہ دوڑتیں تو وہ کیسے “شعائر اللہ” قرار پاتے۔۔۔”زم زم” اس بے کل عظیم ماں کا امت کے لیے گرانقدر تحفہ ہے۔۔۔
پھر کیسی زبردست بونڈنگ باپ بیٹے کے بیچ۔۔۔
بڑھاپے میں اولاد ملی ہے۔۔۔ چھوٹا بچہ باپ کے ساتھ کیسے دوڑتا پھرتا ہوگا۔۔
ایک دن چلتے چلتے باپ نے کہہ دیا؛” بیٹے میں خواب میں تجھے ذبح کر رہا ہوں”۔
کوئی اور بچہ ہوتا جا کر ماں سے شکایت کرتا:” بابا جانی کو کیا ہو گیا ہے ان کو سمجھائیں۔۔۔ کیا مجھے، اپنےنور نظر، جگر کی ٹھنڈک کو اپنے ہاتھوں ذبح کردیں گے؟؟
مگر بیٹا بھی تو ان کا ہے جن کو اللہ قران میں سلام بھیج رہا ہے۔۔۔
کہتا ہے:”بابا جان آپ نے جو خواب دیکھا ہے اس کی تعبیر میں آپ مجھے اولو العزم پائیں گے۔۔۔”
کیسا منظر دیکھا عرش نے۔۔۔
باپ پیارے بیٹے کو ذبح کر رہا ہے۔۔۔
اللہ تعالی کو اتنا اچھا لگا کہ اس کی جگہ مینڈھا بھیج دیا۔۔۔
قیامت تک اس قربانی کی یاد منانے کو کہا امت مسلمہ سے۔۔۔
پھر۔۔۔ کتنی محبت سے بیٹے کے ساتھ اللہ کا گھر تعمیر کیا اور اللہ سے دعا کی کہ:” اے اللہ یہاں پھلوں کا رزق دے اور لوگوں کے دلوں کو اس گھر کا مشتاق بنا”۔
اتنی صدیاں گزریں دنیا بھر کے شرق کو غرب میں بسنے والے مسلمانوں کا دل اسی گھر کا “مشتاق” ہے۔۔۔
جو ایک بار چلا جاتا ہے وہ زندگی بھر کے لیے وہیں کا ہو جاتا ہے۔۔۔ اور جو نہیں جا پاتا اس کی زندگی اس تمنا میں گزرتی ہے کہ مولا اپنے گھر کا دیدار کرا دے۔۔۔
یہ اس گھر کا شوق ہی تو ہے جس کی حضرت ابراہیمؑ نے دعا کی تھی۔
بہت پیارا ہے یہ اسوہ ابراہیمیؑ۔۔۔ اور۔۔۔ یہ بہترین وقت ہے اپنے بچوں کو بتانے کا کہ۔۔۔مسلمانوں کے بڑے تہوار بھی کتنے پاکیزہ ہیں۔۔۔
یہ حقیقت کہ ہر مذہب اپنے تہواروں سے پہچانا جاتا ہے۔ شراب ہے نہ نائٹ کلب نہ رنگ پھینکنا نہ رقص و سرور۔۔۔ عید منائی تو رمضان میں روزے رکھ کر قران پاک کا شکریہ ادا کیا۔ تہوار تو تہوار ہے، وہ تقاضے بھی پورے کیے۔۔۔
اب یہ کتنا پیارا تہوار۔۔۔ ایک طرف حج کے مناسک ادا ہو رہے ہیں دوسری طرف دنیا بھر میں جانور خرید کر حضرت ابراہیمؑ کی قربانی کی یاد کو تازہ کیا جا رہا ہے۔۔۔
ایک بات جو یاد رکھنے کی ہے۔۔۔
جب ہم عیسائیت کی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو وہاں رسوم اور رواج تو باقی رہ گئے تھے مگر ان کی روح باقی نہ رہی تھی۔۔۔
ضرورت ہے کہ اپنی پوری قوت لگا کر ان تہواروں کی روح کو زندہ کریں۔۔۔
حضرت ابراہیمؑ کے اسوے کو خود بھی جانیں۔ قرآن پاک میں جہاں جہاں ان کا ذکر ہے اس کو پڑھیں اور اپنی اولادوں کو بتائیں۔۔۔ یہی عید الاضحیٰ ہے۔۔ یہی قربانی کا پیغام ہے۔