کرنل جان پاول بابائے مری

11/06/2024

1851 کے اوائل میں انگریز فوجی دستے مری میں وارد ہوئے۔اس زمانے میں مری شہر کا کوئی وجود نہیں تھا۔ مری ایک پہاڑی ٹیلا تھا،
یہاں قدرتی خوبصورتی اور گھنے جنگل اور دلفریب موسم کے سوا کسی قسم کی انسانی تعمیر نہیں تھی۔

دو سال تک خیموں میں رہنے کے بعد انگریز دستے نئی بنی ہوئی بیرکس میں منتقل ہوئے۔1857 کی جنگ آزادی کی چنگاریاں مری تک بھی پہنچیں جو ایک الگ اور لمبا موضوع ہے۔

1860 تک 2 فرلانگ طویل مال روڈ مکمل ہوچکی تھی۔ ہولی ٹرینیٹی چرچ بن چکا تھا۔مال روڈ کے اطراف اور مری شہر کے قرب میں ایک نئے شہر کی تعمیر کے خدوخال نمایاں ہو چکے تھے۔ کوٹھیاں اور ہوٹل تعمیر ہونے شروع ہوگئے تھے۔
ابتدا میں اس نوزائیدہ شہر کو مری سینی ٹوریم کا نام دیا گیا اور اسے برطانوی پنجاب کا گرمائی ہیڈکواٹر بنایا گیا۔

1867 میں انگریزوں نے یہاں فوجی چھاونی قائم کی اور اسی سال گورنمنٹ آف پنجاب کے گزٹ نوٹیفکیشن نمبر 596 مورخہ 11 مارچ 1867 کے مطابق مری سینی ٹوریم کا نام تبدیل کرکے مری میونسپل کمیٹی رکھا گیا۔

بہت سے انگریزوں نے یہاں ہوٹلنگ کا کاروبار شروع کیا اور چند سالوں میں لکھ پتی بن گئے۔
کچھ انگریزوں کے نام آج تک مشہور ہیں ، بلکہ ان ہوٹلوں کو جنہیں یہ لوگ چلاتے تھے ، عوام آج تک انہی کے ناموں کی نسبت سے یاد کرتے ہیں ، مثلا روبری ہوٹل ، پول ہوٹل چیمبرز ہوٹل وغیره۔

روبری اور پال مری کے دو مشہور ہوٹل کیپر گزرے ہیں۔ دونوں نے اس کاروبار میں بہت نام اور دولت کمائی۔ دونوں کے متعلق مشہور تھا دونوں نے نوعمری میں ادنی ملازم کی حیثیت سے ہوٹل بزنس میں کام شروع کیا اور رفتہ رفتہ کئی ہوٹلز کے مالک بن گئے۔

پول کا پورا نام جان پاول تھا۔ ہوٹل بزنس میں نام اور دولت کمانے کے بعد جان پاول مری میونسپل کمیٹی کے رکن بنے اور پچاس برس تک مری میونسپل کمیٹی کے نائب صدر رہے۔
مری شہر کی تعمیر وترقی میں جان پاول کا بہت بڑا حصہ ہے۔
برطانوی حکومت نے انہیں لیفٹنٹ کرنل کا اعزازی عہدہ دیا تھا، مری کے مقامی لوگ انہیں “پول صاب” کہا کرتے تھے۔ انہیں مری کا “بے تاج بادشاہ“ کہا جاتا تھا.

کرنل جان پاول مقامی پہاڑی زبان اپنی مادری زبان انگریزی کی طرح صفائی اور روانی سے بولا کرتے تھے۔

1865 میں مری میونسپل کمیٹی کے رکن بننے والے جان پاول 1936 تک کمیٹی کے نائب صدر رہے۔

وہ ہر روز صبح سویرے شہر کے معائنے کے لیے نکلتے۔ ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہوٹل، دکانیں، مذبح خانے چیک کرتے۔ نرخ نامے دیکھتے اور مقامی لوگوں سے انکے مسائل سنتے۔ صفائی کے انتظامات دیکھتے۔ نئی تعمیر ہونے والی بلڈنگ کا معیار تعمیر چیک کرتے اور ساتھ میں سختی سے قدرتی ماحول کی حفاظت اور بلڈنگ کوڈ کی نگرانی کرتے۔

اگر کوئی انگریز یا مقامی انتباہ کے باوجود باز نہ آتا تو وہ اپنے میجسٹریٹی اختیار کا استعمال کرتے۔

جان پاول کے دور میں مری نے بےمثال ترقی کی۔ کھانے پینے کی اشیا صاف ستھری اور نرخ نامے کے مطابق ہوا کرتی تھیں۔ قدرتی ماحول کی حفاظت کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔
کہتے ہیں کہ جان پاول مقامی لوگوں سے بہت محبت کیا کرتے تھے۔ ان میں گھل مل کر انکے مسائل حل کیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں ذرائع نقل وحمل بہت محدود تھے۔ مری شہر میں کشمیر، ہزارہ اور دیگر پہاڑی علاقوں سے پیدل چل کر آنے والے محنت کش مزدوروں کے پاس سر چھپانے کا ٹھکانہ تک نہیں ہوا کرتا تھا۔ انکی اس تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے کرنل جان پاول نے 1929 میں مسلم ریسٹ ہاوس تعمیر کروایا جہاں آنے والے ہر شخص کو بلا تفریق مفت رہائش اور کھانا ملا کرتا تھا۔ مری کے دور دراز علاقوں سے پنڈی جانے والے بھی یہاں قیام پذیر ہوا کرتے تھے۔

ایک بار مقامی لوگوں نے درخواست کی کہ ایندھن کے طور پر استعمال ہونے والی سوختنی لکڑی کا بھاؤ ایک روپیہ فی پانچ من بہت زیادہ ہے۔ لحاظہ اسے کم کیا جائے۔ کرنل صاحب نے اسی دن لکڑی کا بھاؤ ایک روپیہ فی چھ من کروا دیا۔

1929 میں تعمیر ہونے والے ٹاون ھال(جسے اب جناح ھال کہا جاتا ہے) کا نام پاول ھال رکھا گیا۔ یہ کرنل جان پاول کی خدمات کا بہترین خراج تحسین تھا۔
1936 میں جان پاول اور ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کتھبرٹ کنگ میں اختلاف پیدا ہوا۔ جان پاول مری میونسپل کمیٹی میں کسی قسم کی بیرونی مداخلت کے خلاف تھے۔ اختلاف بڑھا تو جان پاول نے اپنے عہدے سے استعفی دیا اور اسی سال انگلینڈ واپس چلے گئے۔ جاتے جاتے اپنے ایک درجن کے قریب معیاری ہوٹل اور کوٹھیاں ممتاز ہندو تاجر کرپا رام کو دے گئے۔
جان پاول کہنے کو تو انگلینڈ واپس چلے گئے مگر اپنا دل مری میں چھوڑ گئے۔ ہر لمحہ انہیں مری کی یاد ستاتی۔ مقامی لوگ یاد آتے۔ صرف چند ماہ انگینڈ رہنے کے بعد وہ واپس مری کی طرف عازم سفر ہوئے۔ اپنے گھر والوں کو الوادع کہنے کے ساتھ یہ بھی کہا کہ میں نے جس شہر میں عمر گزاری وہاں ہی دفن ہونا چاہتا ہوں۔ میں مری سے جدا نہیں ہوسکتا۔
وہ 1937 میں مری واپس پہنچے اور اپنے دیرینہ ملازم اکبر خان کے ہمرا پرانے وقتوں کو یاد کرتے اپنے آخری دن گزارنے لگے۔ پرانے سنہری دن کبھی واپس نہیں آئے۔۔۔

1938 میں اس نیک انسان نے 82 سال کی عمر میں موت کو لبیک کہا اور مری کی سرزمین میں مدفون ہوئے۔ انکی آخری رسومات میں بلا تفریق مذہب ملت ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اور اپنے”پول صاحب” کو الوداع کیا۔

وہ بلاشبہ مری کے اولین معمار تھے۔ وہ ہم سب کی تاریخ کا حصہ ہیں۔
آج ہم جو ملکہ کوہسار مری دیکھتے ہیں، اس کی بنیادوں میں جان پاول کا خلوص اور محنت شامل ہے۔

جان پاول اپنی حکومت اور اپنے وطن کے سچے وفادار ہونے کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کو بھی اپنا سمجھنے والی انسان دوست شخصیت کے مالک تھے۔ وہ انگلینڈ کے ساتھ ساتھ مری کو بھی اپنا وطن سمجھتے تھے۔

️ میں نے برسوں پہلے انکے متعلق پڑھا تو انکی قبر پر جانے کا سوچا۔ میری خواہش تھی کہ قبر کی تصویر اور ویڈیو بناؤں تاکہ ہمارے لوگوں کو مری شہر کے ایک ہمدرد اور مسیحا کے متعلق علم ہو۔
خوش قسمتی سے میری یہ خواہش پوری ہوئی اور قبرستان کے اندر جانے کا موقع ملا۔
شدید جھاڑ جھنکاڑ سے آٹے ہوئے قبرستان میں سب کچھ گھاس کے نیچے غائب ہوچکا تھا۔ ہر طرف ویرانی پھیلی ہوئی تھی۔ چند ٹوٹی پھوٹی قبروں کے نشان تھے۔ مری کی تاریخ کا اولین باب مٹنے کے قریب تھا۔
ایسے میں ایک کونے میں سفید مرمری پتھر کی اداس خاموش اور ویران لوح نظر آئی۔ یہ جان پاول کی قبر تھی۔

بہت مشکل سے جھاڑ جھنکاڑ کے سمندر سے گزر کر اس شخص کی قبر تک پہنچا جو کبھی مری کا بے تاج بادشاہ ہوا کرتا تھا۔جس کا کہا ہر لفظ حکم بن جاتا تھا۔

قبر سے جھاڑ جھنکاڑ ہٹایا اور مری کے محسن کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئیے چند منٹ کی خاموشی اختیار کی۔

انسان کی ایسی بے ثباتی اور بے چارگی دیکھ کر دل اداسی اور دکھ سے بھر گیا۔ کیسا اختیار اور کیسی طاقت؟؟ وقت بڑے سے بڑے انسان کو مٹی کا ڈھیر بنا دیتا یے۔
انسان کے پاس اختیار اور طاقت بہت تھوڑے وقت کے لئیے اور عارضی ہوتی ہے۔ صدا بادشاھی اور طاقت صرف اللہ رب العالمین کے پاس ہے۔

بحیثیت مسلمان اور مری کا باسی ہونے کے ناطے یہ قبرستان ہمارے لئیےایک محترم جگہ اور ایک تاریخی اثاثہ ہے۔
ایک مسلم ہونے کی حیثیت سے غیر مسلموں کی عبادت گاہوں اور قبروں کا احترام بھی ہم سب پر لازم ہے۔ یہ انسانی ورثہ ہے جو ساری انسانیت کے لئیے یکساں محترم اور اثاثہ ہے۔

(منقول مری ہلز پاکستان)