اچھا انسان وہی جو معاف کرنا جانتا ہے

06/06/2024

ہمارا اسلام ہمیں ہمیشہ سچی بات کہنے اور دوسروں کو حق بات پہنچانے کی تلیقین کرتا ہے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم کسی کی غیبت نہ کریں، جھوٹ نہ بولیں، کسی کا مذاق نہ اڑائیں، چوری و زنا سے دور رہیں، حق اور سچ بات کہنے سے پیچھے نہ ہٹیں چاہے ہمیں کتنا ہی نقصان کیوں نہ اٹھانا پڑے، کسی کا دل نہ دکھائیں۔

ہم انسان ہیں اور انسان غلطیوں کا پُتلا ہے، کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں غلطی ضرور کر بیٹھتا ہے۔ ہم فرشتے نہیں جو ہر گناہ سے پاک ہیں۔ ایک انسان غلطی کرتا ہے تو وہی غلطی دوسرے سے بھی ہو سکتی ہے۔ دوسروں کی اصلاح کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی بھی اصلاح کرنی ہو گی۔ ہمیشہ ایک انسان غلطی کرتا رہے اور دوسرا نہ کرے ایسا نہیں ہوتا۔ کسی کے پاس علم زیادہ ہے اور کسی کے پاس کم لیکن یہ فیصلہ کرنا کہ زیادہ علم بہتر ہے تو یہ کہنا غلط ہو گا۔ اگر زیادہ علم والے کا عمل کم ہے اور کم علم والے کا عمل زیادہ ہے تو میری نظر میں کم علم بہترین انسان ہے جو علم کم ہونے کے باوجود زیادہ عمل کی طرف سے توجہ رکھے ہوئے ہے۔ علم کا غرور انسان کو مٹی میں ملا سکتا ہے، خود کو اونچا اور دوسروں کو حقیر سمجھنا یہ مومن مسلمانوں کا کام نہیں۔
اللہ تعالی کی نظر میں کون کتنا اچھا ہے، کس کا وقار زیادہ بلند ہے، کس کے اعمال زیادہ بہترین ہیں یہ صرف اور صرف اللہ تعالی کی ذات جانتی ہے۔
اسلام ہمیشہ ہمیں پیار سے بات کرنے اور آپس میں ایک رہنے کا درس دیتا ہے نا کہ مختلف حصوں میں بٹ کر رہنے کا۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کافروں کو طائف پر اسلام کی دعوت دینی چاہی تو کافروں نے آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مار کر لہولہان کر دیا تھا، اللہ تعالی کی طرف سے حکم ہوا کہ اے نبی اگر آپ کہیں تو ان کی بستی کو اُلٹا دیں یا ان کو دو پہاڑوں کے درمیان دے ماریں تو تب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے اور جذبات کا اظہار نہ کیا بلکہ ان کافروں کے لیے ہدایت کی دُعا کی۔ کیا شان ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کہ کافروں کے ظلم کو جواب اللہ تعالی سے ان کی ہدایت کی صورت میں مانگا اور ایک ہم ہیں جو کافر تو دور مسلمان بہن بھائیوں/رشتہداروں۔۔۔ وغیرہ وغیرہ کی ایک چھوٹی سی بات پر آگ بگولا ہو کر لعن طعن، گالم گلوچ، خون خرابے، اور طنز و تنقید پر اتر آتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اپنے دین کو سمجھتے اور مانتے ہیں اگر ایسا ہے تو ہمارے اندر برادشت کا مادہ کیوں نہیں ہے؟ کوئی غلط بات سننے پر ہم کم عقلی کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں؟ بات کو سلجھانے کی بجائے اسے بگاڑنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟ اسلام ہمیں یہ تو درس نہیں دیتا کہ دوسرے کو جگہ جگہ ذلیل کریں، اُس کا مذاق بنائیں اور اُسے اپنے سے دور کر دیں۔ ایک مومن مسلمان کو ایسی باتیں زیب نہیں دیتی کہ وہ اپنے مسلمان چاہے وہ زوجین ہوں، یا دیگر رشتے ناطے کو ذلیل کرے ، اُس پر طنزیہ جملے کسے، اور معاف کرنے کی بجائے بدلے کی آگ دل میں رکھے اور وقت آنے پر اس آگ کو منہ سے اگلے۔ دوسروں کو اسلام کی تلیقین کرنے سے پہلے ہمیں خود اپنے اسلام کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہو گا۔ کسی کی بات/کام میں کیڑے نکالنا بہت ہی آسان کام ہے یا کسی کو غلط ثابت کرنا بہت آسان کام لگتا ہے لیکن اپنی ہی غلطی کو ماننا شاید خود انسان کے لیے بہت دشوار ہو جاتا ہے۔ دوسروں کی غلطی سُدھارنے کے لیے ہمیں اپنی غلطیوں کی طرف بھی نظر دوڑانی چاہیے۔
دو لفظ بول کر کسی کا دل دُکھانا بہت آسان ہے لیکن اگر وہی سب کچھ اپنے ساتھ ہو جو ہم دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں تو شاید ہمیں اندازہ ہو کہ خود وہ تکلیف سہنا کتنا مشکل ہے جو ہم دوسروں کو باآسانی دیتے جاتے ہیں۔

اللہ تعالی سے دُعا گو ہوں کہ وہ ہم سب کو اپنی غلطیوں کو جاننے اور اُس کو سُدھارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں دوسروں کی غیبت کرنے، جھوٹ بولنے، زیادہ علم کا غرور کرنے، اپنے بڑے پن پر تکبر کرنے، دلوں میں بغض رکھنے، کسی سے حسد کرنے اور کسی کا دل دُکھانے سے باز رکھے آمین یا رب العالمین۔

نوٹ: یہ تحریر پڑھ کر اپنا محاسبہ کریں، کہیں کوئی خامی پائیں تو اسے پہلی فرصت میں سدھارنے کی کوشش کریں۔