ماحول دوست۔۔۔ درخت لگائیں، زندگی بچائیں

05/06/2024

درخت ماحول کی حفاظت کے اہم سپاہی ہیں ،زندگی کی علامت اور زمین کا زیور ہیں۔ کہتے ہیں، ملک سونے اور چاندی کے بغیر ترقی کرسکتا ہے لیکن جنگلات کے بغیر نہیں۔

درخت اور پودے کاربن ڈائی آکسائیڈ لیتے اور آکسیجن فراہم کرتے ہیں اور آکسیجن انسانی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اہل فارس کی عمریں بہت طویل ہوتی تھی، اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ فارس کے بادشاہ نہروں کی کھدائی اور شجرکاری میں بہت رغبت رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے ان کی عمریں بھی بہت لمبی ہوا کرتی تھیں۔ تفسیر کبیر میں درج ایک واقعہ  کے مطابق ایک نبی نے فارس کے لوگوں کی لمبی عمر سے متعلق ﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں استفسار کیا تو ﷲ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ یہ لوگ میرے شہر کو آباد کرتے ہیں، اسی وجہ سے یہ دنیا میں زیادہ عرصہ زندہ رہتے ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی آخری عمر میں کھیتی باڑی کا کام شروع کر دیا تھا۔ احادیث میں پودے لگانے کے فضائل بھی بیان ہوئے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو مسلمان درخت لگائے یا فصل بوئے پھر اس میں جو پرندہ یا انسان یا چوپایہ کھائے تو وہ اس کی طرف سے صدقہ شمار ہو گا۔ ایک مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے درخت لگایا پھر اس کی حفاظت کی اور دیکھ بھال پر صبر کیا یہاں تک کہ وہ پھل دینے لگا تو اس میں سے کھایا جانے والا ہر پھل ﷲ تعالیٰ کے نزدیک اس (لگانے والے) کے لیے صدقہ ہے۔ (مسند امام احمد)
سائنسی تحقیق کے مطابق بھی شجرکاری کے بڑے فوائد ہیں۔ 
ہم اکثر سنتے ہیں کہ درخت وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں جو ہمارے لیے سمِ قاتل ہے اور وہ آکسیجن پیدا کرتے ہیں جو ہماری زندگیوں کی ضامن ہے۔ درحقیقت امریکی محکمہ زراعت کی تحقیق کے مطابق، ایک ایکڑ پر لگے درخت چھ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب اور چار ٹن آکسیجن خارج کرتے ہیں، جو 18 انسانوں کی سالانہ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔

درخت کی جھاڑیاں اور گھاس، دھول کو ہٹا کر دیگر آلودہ گیسوں کو جذب کرکے ہوا کو پاک کرتے ہیں۔ درخت، سورج، بارش اور ہوا کے اثرات کو معتدل کر کے آب و ہوا کو انسانوں کے  لیے سازگار بناتے ہیں۔ پتے سورج کی تابکاری شعاعوں کو جذب کرکے انہیں صاف کرتے ہیں اور گرمیوں میں چیزوں کو ٹھنڈا رکھتے ہیں۔ ہوا کی رفتار اور سمت کو قابو میں رکھنے کے ساتھ ہی یہ ہمیں بارش، ژالہ باری اور اولوں سے بھی بچاتے ہیں۔
زمین کے اوپر اور نیچے دونوں جگہوں پر یہ ماحولیاتی نظام کے  لیے ضروری ہیں، زمین کے نیچے دور تک پھیلی ان کی جڑیں زمین کی مٹی کو اپنی جگہ پر رکھتی ہیں اور زمین کے کٹاؤ اور زلزلوں کے خلاف مدافعت کرتے ہیں۔ درخت بارش کے پانی کو جذب اور ذخیرہ کرتے ہیں، جس سے زمین کے نیچے صاف پانی کو ذخیرہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ ندیوں میں کیمیکلز کی نقل وحمل اور سیلاب کو روکتے ہیں۔ درخت سے گرے ہوئے پتے بہترین کھاد بناتے ہیں جو مٹی کو افزودہ کرتے ہیں۔

درختوں نے انسانی وجود کی ابتدا سے لے کر اب تک اسے سہارا دیا ہوا ہے۔ لکڑی سب سے پہلا ایندھن تھا اور آج بھی دنیا کی نصف آبادی کھانا پکانے اور اپنے جسم کو حدت پہنچانے کے لیے اسی کا استعمال کرتی ہے۔ عمارت کی تعمیر ہو یا فرنیچر کی تیاری، اوزار، کھیلوں کے سازوسامان اور ہزاروں گھریلو اشیا، درخت کی لکڑی ہی سے معرضِ وجود میں آتی ہیں۔ کتابوں کی صورت میں جو علم ہم تک پہنچا اور ہمارے آنے والوں تک پہنچے گا، ان کتابوں کے صفحات بھی اسی کے مرہون منت ہیں۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم جنگلات میں اضافہ تو دور کی بات ہے جو جنگلات موجود ہیں ان کو بچانے میں ہی ناکام ہیں۔ کیونکہ ترقی کی دوڑ کی وجہ سے جس طرح آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے اس تیزی سے ہم درخت نہیں اگا رہے ہیں، جس کا نقصان ہم بھی اٹھا رہے ہیں اور آنے والی نسلیں بھی اٹھائیں گی۔ اگر ہمیں اپنے مستقبل کو زہر آلود ماحول سے بچانا ہے اور قدرتی ماحول فراہم کرنا ہے تو اس کے لیے آج کوئی فیصلہ کرنا ہوگا۔ آج اپنے حصے کا درخت لگانا ہوگا، لگے ہوئے درختوں اور جنگلات کی حفاظت کرنا ہوگی۔ جوڈی تھامس نے کہا تھا کہ”جب درخت جلائے جاتے ہیں ، تو وہ ہوا میں ایک دل دہلا دینے والی بو چھوڑ دیتے ہیں۔”

آئیے اپنے کھوئے ہوئے قدرتی اور فطری ماحول کو واپس لانے میں اپنا حصہ ڈالیں اور اپنے حصے کا درخت لگائیں۔