اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
31/05/2024
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں
ہم اپنی روزمرہ زندگی میں بے شمار امور انجام دیتے ہیں۔ اور کام اگر کامیابی سے انجام پا جائے جس کے لئے ہم انتھک محنت کر رہے ہوتے ہیں، تو ہماری خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ ہم فرط مسرت سے اپنے ساتھیوں اور چاہنے والوں کو اپنی خوشی میں شامل کرتے ہیں۔ اپنی تعلیم، قابلیت اور اہلیت پر فخر کرتے ہیں۔ زندگی مختلف مزاجوں کے اتار چڑھاؤ پر مبنی بہت سے complexes کا مجموعہ ہے۔ ہم اپنے اردگرد کے ماحول سے نا صرف مانوس بلکہ اس کی چاہت میں دیوانہ وار ہو کر اسی دنیا کے اسیر ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ رزق، اولاد، کامیابی اور سربلندی سب اللہ تعالی کی عطا ہے۔ بیشک بندہ محنت کئے بغیر یہ تمام نعمتیں حاصل نہیں کر سکتا۔ دینے والی ذات صرف اور صرف اللہ تعالی کی ہے۔ اگر اللہ توفیق نہ دے، تو ہزار کوشش کے باوجود ہم کچھ نہیں پا سکتے۔
سمجھنے کی بات یہی ہے کہ ہم دنیاوی زندگی کو ہی زندگی سمجھ بیٹھے ہیں۔ جبکہ اللہ تعالی نے واضح طور فرما دیا ہے کہ یہ مال اور نعمتیں چند روزہ زندگی کا سامان ہیں۔ ہمیشہ اور باقی رہنے والی زندگی آخرت ہی ہے۔ آخرت پانے کے لئے اللہ کا قرب درکار ہوتا ہے۔ بعض اوقات تمام عمر کی ریاضت کسی گناہ کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے تو کبھی سدا کا گنہگار اپنے کسی اچھے عمل کی وجہ سے بخشش پا جاتا ہے۔ اللہ تعالی کی بے نیازی ہے، جسے چاہے بخش دے۔
ﷲ سبحانہ وتعالیٰ کی بارگاہ میں افضلیت کا معیار صرف زبانی دعویٰ نہیں ہے۔ بلکہ اس بارگاہ میں طرز عمل کا بھی اعتبار ہے۔ حق تعالیٰ کی محبت دلیل مانگتی ہے اور دلیل کسی عمل کے بغیر ثابت نہیں ہوتی۔ حدیث قدسی میں ہے۔ ﷲ رب العزت نے ارشاد فرمایا :”میرا بندہ میرا قرب پانے کی جستجو میں کوشاں رہتا ہے، حتیٰ کہ میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں، جب میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو میں اس کا ہاتھ ہوتا ہوں جس کے ساتھ وہ پکڑتا ہے میں اس کی بصیرت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ دیکھتا ہے، میں اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ سنتا ہے، میں اسکی رجل بن جاتا ہوں جسکے ساتھ وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو میں ضرور اسے پناہ دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوں۔”
اور پھر میں بخوشی اور فخر سے کیوں نہ کہوں کہ مجھے محبت ہے اپنے پاک پروردگار سے کہ جس کے آگے جھکنے سے بلندی ملتی ہے۔یہاں بلندی کا مطلب درجات کی بلندی ہے، حق تعالیٰ اپنے عبادت گزار بندے کو اپنے محبوبین اور مقربین میں شامل کر لیتا ہے، اگر ان بندوں پر کوئی آزمائش آتی ہے تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ رب تعالیٰ ان سے ناراض ہے بلکہ یہ آزمائش، تکالیف، مصیبتیں تو فقط رب تعالیٰ امتحان لینے کے لیے بھیجتا ہے۔ آزمانے کے لیے بھیجتا ہے تاکہ ﷲ رب العزت دیکھ سکے کہ اس کے جس بندے کو ایک اہم مقام پر فائز کیا گیا ہے کیا وہ اس قابل ہے یا نہیں۔
چل دئیے سوئے حرم کوئے بتاں سے مومن والے جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا۔۔۔
ﷲ سبحانہ وتعالیٰ کا کسی شخص کو محبوب رکھنا یعنی اس کے درجات کو عرشِ عظیم میں بلندی عطا فرمانا ہے۔ دنیا کی زندگی تو ویسے بھی دھوکے کا سامان ہے۔ اس دنیا میں چاہے جتنی بھی عیش و عشرت اور آسائشیں کما لی جائیں لیکن دارِ آخرت ہی ابدی ہے اور اسی کی حیات ہمیشہ رہنے والی ہے۔ اس فریب کی دنیا کا مقام و مرتبہ ، آخرت میں کچھ کام نہ آئے گا۔ وہ لمبے قیام، وہ رکوع، وہ سجود وہ خشوع و خضوع سے بھرپور خالص دل سے کی جانے والی عبادات ہی تو کام آئیں گی۔ رب تعالیٰ اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے بڑھ کر پیار اور رحم فرمانے والا ہے وہ کسی کی کوشش و عبادت کو رائیگاں نہیں جانے دیتا اور بے شک ہر کام اس کے لیے آسان ہے۔
دو جہانوں کو پالنے والا ہم سب کو اپنا عبادت گزار اور شکر گزار بنائے اور ہماری ان ٹوٹی پھوٹی عبادتوں کو اپنے ہاں قبولیت کا درجہ عطا فرمائےاور ہم سب کو اپنا محبوب بنا لے، آمین۔