زندگی کو ایک لفظ میں بیان کرو۔۔۔
24/05/2024
زندگی کو ایک لفظ میں بیان کرو۔۔۔
میں نے جواب میں “بندگی” لکھ دیا۔
ونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ” تمام عظیم چیزیں سادہ ہیں، اور اکثر صرف ایک لفظ کے ذریعے بیان کی جا سکتی ہیں۔ “
ایک لفظ جو آپ کی زندگی کی درست طور پر نمائندگی کرتا ہے، جو آپ کی شخصیت کا رنگ ہے، نمائندہ ہے، جو آپ کی اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے مدد کرتا ہے، زندگی کے ہر قدم پر آپ کا ساتھ دیتا ہے، آپ کے ساتھ مسکراتا ہے اور آپ کے ساتھ روتا ہے۔
ایک لفظ ایسا ہوتا ہے جو ناکامی میں آپ کے ساتھ کھڑا ہو کر آپ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، آپ کو آگے بڑھنے کی ترغیب دیتا ہے۔
کینیڈین مصنف ایون کارمائیکل کی ایک شان دار کتاب “آپ کا ایک لفظ” اس سلسلے میں تفصیل کے ساتھ وہ راز منکشف کرتی ہے جس کی مدد سے ایک کامیاب کاروبار اور کامیاب زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ایک لفظ ایسا ہے جس سے یہ وضاحت ہو سکتی ہے کہ آپ کون ہیں؟ ہر شخص کا ایک لفظ ہوتا ہے، جس پر اس کی زندگی اور زندگی کی کامیابیوں کا انحصار ہوتا ہے۔ ایک ایسا لفظ جسے آپ اہم فیصلے کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آپ اپنا لفظ کیسے تلاش کریں۔ تو اس کے لیے خود سے یہ تین سوال کریں:
آپ کی پسندیدہ چیزیں کیا ہیں؟ شخصیت کی خصوصیات کیا ہیں؟ اور تبدیل نہ ہونے والے عناصر کیا ہیں؟
مثال کے طور پر آپ کی پسندیدہ کتابیں یا فلمیں کون سی ہیں اور ان میں قدرِ مشترک کیا ہے؟ آپ جن لوگوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں یا وہ جن سے آپ کتراتے ہیں، ان کی شخصی خصوصیات کیا ہیں، اور ان میں کیا مشترک ہے اور کیا ایک دوسرے سے الگ؟ اور یہ کہ آپ کی زندگی میں جہاں تک آپ کو یاد ہے، کون سی دلچسپیاں موجود ہیں؟
بس تھوڑی ہی دیر کی محنت و جستجو سے آپ خود سے ان سوالات کے ذریعے وہ لفظ ڈھونڈ سکتے ہیں جس پر آپ کی زندگی کی کامیابیوں کا انحصار ہوتا ہے۔ اس مشق سے آپ کو کئی سارے الفاظ ملیں گے، آپ ان میں مشترک چیزیں تلاش کریں اور اس طرح اپنے ایک لفظ تک پہنچیں۔ وہ لفظ جو مشکل وقت میں آپ کی مدد کرتا ہے۔
مجھ خاکسار کے نزدیک “بندگی” سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔ میرے نزدیک بندگی سے مراد پوری زندگی میں بندگی ہے اور بندگی سے مراد صرف مراسم عبودیت یا پرستش کے طریقے نہیں ہیں بلکہ اس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔۔۔ کیونکہ جن اور انسان اپنی پوری زندگی رات اور دن صرف عبادت میں نہیں گزارتے۔
اللہ تعالی نے لوگوں کو اس بات کا مکلف نہیں بنایا کہ وہ رات اور دن بندگی اور پرستش کریں بلکہ اللہ تعالی نے ان کو مختلف قسم کی زندگی گزارنے کا مکلف بنایا ہے۔ جنوں کی سرگرمیوں کا تو مجھے علم نہیں ہے لیکن انسانوں کی سرگرمیوں کا علم ضرور ہے۔ قرآن مجید نے انسان کی تخلیق کی سکیم بتائی ہے۔
واذقال …….. خلیفة۔” جب اللہ نے فرشتوں سے کہا کہ میں انہیں میں خلیفہ بنانے والا ہوں “
لہٰذا زمین میں فریضہ خلافت ادا کرنا بھی انسان کی ذمہ داری ہے اور خلافت کی ذمہ داری میں مختلف قسم کی سرگرمیاں شامل ہیں یعنی زمین کی قوتوں میں تصرف کرنا ، اس کے اندر پوشیدہ ذخائر کو تلاش کرکے انسانیت کی خدمت کے لئے استعمال کرنا ، زمین کے اوپر انسانی زندگی کو ترقی دینا ، اس طرح خلافت کی ذمہ داریوں میں سے یہ بھی ہے کہ جو لوگ مسلمان ہوں وہ اللہ تعالی کی شریعت قائم کرلیں اور جس طرح کائنات میں اللہ تعالی کی مرضی چلتی ہے اسی طرح انسان کی اختیاری زندگی میں بھی اللہ تعالی کی مرضی کو نافذ کیا جائے۔
اس سے معلوم ہوا کہ فعل عبادت جو انسان کا مقصد زندگی ہے وہ زیادہ وسیع اور جامع مفہوم رکھتا ہے اور اس سے مراد صرف مراسم عبودیت نہیں ہیں اور زمین پر اللہ تعالی کی خلافت کے فرائض سرانجام دینا بھی عبادت میں شامل ہے۔
بندگی اور عبادت ، امتیاز کا وہ مقام ہے جو انسانوں کو دیگر مخلوقات سے الگ کردیتا ہے، اگر انسانوں کی حیات میں عبادت و بندگی نہ ہو پھر حیوانوں کے مانند اس زمین پر چند دنوں کی چلتی پھرتی زندگی پر موت کی چادر ڈال دی جائے گی اور لوگ اس بدبودار جسم سے نجات پانے کے لئے اسے منو مٹی میں دفنا دیں گے ۔
لیکن اگر یہی حیات اطاعت الہی میں گذرے تو برسوں بعد بھی جسم میں تروتازگی موجود رہے گی، جس کا ایک چھوٹا سا نمونہ صحابی رسول اسلام (ص) حجر ابن عدی کا جسم ہے، جو برسوں بعد بھی جب قبر سے نکالا گیا تو کفن تک میلا نہ ہوا تھا ۔
قران کریم اور احادیث میں لفظ عبادت کا ایک خاص مفہوم بھی ہے اور وہ انسانوں کا اپنے پروردگار سے دعا، نماز، ذکر اور قران کریم کے وسیلہ رابطہ قائم کرنا ہے جس کی انبیاء اور اولیاء الھی سلام اللہ علیھم نے بہت زیادہ تاکید کی ہے اس حد تک کہ امام صادق علیه السلام رسول اکرم صلّى الله علیه وآله وسلّم حدیث نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
أَفْضَلُ النّاسِ مَنْ عَشِقَ الْعِبادَةَ، فَعانَقَها بِنَفْسِهِ وَ باشَرَها بِجَسَدِهِ، وَ تَفَرَّغَ لَها، فَهُوَ لایُبالِی عَلی ما أَصْبَحَ مِنَ الدُّنْیا، عَلی عُسْرٍ أَمْ عَلی یُسْرٍ.
ترجمہ: لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جس کے دل میں عبادت کا اشتیاق ہو، اپنے پورے وجود کے ساتھ عبادت سے مانوس ہو ، اپنا پورا وقت عبادت الھی میں گذارے اور دنیا کی آسانیوں اور پریشانیوں میں ھرگز اس کے قدم نہ ڈگمگائیں ۔
اولیائے الھی علیھم السلام کی عبادتیں اور مناجات، ان زندگی اور حیات سے الگ اور خالی اوقات کا حصہ نہیں ہیں بلکہ ان کی حیات کا جزو ، سرمایہ اور ان کے روز مرہ کا پروگرام کا حصہ شمار ہوتی تھیں ، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جب تک مومن کی روح ہر دن ذات پروردگار سے مکمل مستفید نہ ہولے، اپنی روز مرہ کی سرگرمیوں میں بندگی کے وظیفہ پر صحیح عمل نہیں کرسکتی ۔
پروردگار عالم نے رسول اکرم صلّى الله علیه وآله وسلّم کو آپ کی بعثت کے ابتدائی دنوں میں فرمایا کہ: قُمِ اللَّیْلَ إِلاَّ قَلیلاً ؛ اے حبیب راتوں کو اٹھئے مگر ذرا کم۔۔۔ یعنی اللہ تعالی نے انہیں راتوں کو اٹھنے سے نہیں روکا بلکہ مقدار کم کرنے کی تاکید فرمائی ۔
اور راتوں کی مناجات کا مفھوم بھی یہی ہے جیسا کہ بعد کی آیتوں میں تلاوت کلام اللہ، نماز، دعا اور ذکر الھی کا تذکرہ ہے: وَ رَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتیلاً ؛ اور ترتیل کے ساتھ قران کی تلاوت کریں ۔ (سورہ المزمل)
لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جس کے دل میں عبادت کا اشتیاق ہو، اپنے پورے وجود کے ساتھ عبادت سے مانوس ہو، اپنا پورا وقت عبادت الھی میں گذارے اور دنیا کی آسانیوں اور پریشانیوں میں ھرگز اس کے قدم نہ ڈگمگائیں۔
اللہ تعالی ہمیں اپنا قرب نصیب فرمائے، ہمیں اپنی بہترین عبادت کرنے والا، اپنا ذکر کرنے والا اور شکر کرنے والا بنا دے، آمین۔