پاکستانی ڈرامے

15/05/2024

(گلیمر، منفی رویوں اور ملے جلے کمپلیکس کے عکاس ہیں)

ہمارے ٹی وی ڈرامے کا کبھی وہ بھی بامِ عروج تھا جب عوام پورے ذوق و شوق کے ساتھ ٹی وی اسکرینوں کے آگے بیٹھ کر ان سے اچھا خاصا لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ ناظرین اپنے پسندیدہ ڈرامے کا پورا پورا ہفتہ انتظار کیا کرتے تھے اور ان کی مقبولیت اور معیار کا یہ عالم تھا کہ ان ڈراموں کے آن آئیر ہوتے ہی گلیاں اور سڑکیں ویران ہو جایا کرتی تھیں۔ لیکن پھر کمرشل ازم کے نام پر ڈراموں کے ساتھ وہ ڈرامے بازی شروع ہوئی جس نے ڈرامے کو عوام الناس کی نظر میں بوریت اور یکسانیت کا استعارہ بنا دیا ہے۔ اس کے باوجود ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ تمام پرائیوٹ چینلز پر بے شمار ایسے ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں جو تفریح کی رونق بننے کی بجائے مزاجوں اور روئیوں پر منفی اثرات کی عکاسی کرتے ہیں۔
عوام کے ان مسترد شدہ اور ناپسندیدہ ڈراموں کی سب سے بڑی خامی ان کے بوریت سے بھرپور موضوعات اور غیر معیاری کہانیاں ہیں۔ ان ڈراموں میں پرفارمنس کی بجائے صرف گلیمر ہی نظر آتا ہے۔ ان سب ڈراموں کا ایک ہی موضوع پر ایک جیسی کہانی ہوتی ہے۔ تقریباً ہر ڈرامے میں ساس بہو، نند بھاوج، دیورانی اور جیٹھانی ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار نظر آتی ہیں۔ گھریلو جھگڑوں میں عورتوں کی عورتوں اور مردوں کی عورتوں کے خلاف سازشوں اور ظلم و ستم کو اس قدر مرچ مصالحہ لگا کر اور بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے کہ دیکھنے والوں کو یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ دنیا کے سارے گھٹیا مرد اور ساری گھٹیا عورتیں خیر سے صرف ہمارے معاشرے میں ہی پائے جاتے ہیں۔ یہ ڈرامے صرف گھریلو لڑائی جھگڑوں کے بارے میں عوامی شعور میں اضافہ نہیں کرتے بلکہ ان میں عشق و محبت کے مسائل کی بھی جامع تصویر کشی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ناظرین کو عشق و محبت کے متاثرین نوجوان عاشقوں کے مسائل اور مشکلات سے دل کھول کر روشناش کروایا جاتا ہے۔ میاں بیوی کے خوبصورت رشتے کی بے توقیری بھی ان ڈراموں کا خاصہ دکھائی دیتی ہے۔
ٹی وی ڈراموں سے ملنے والا شعور وہ شعور نہیں جو ہمارے اندر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو نکھار کر ہمیں اپنی خامیوں پر نظر ثانی کروائے، بلکہ یہ اس گھٹیا شعور کی آبیاری کر رہا ہے جسے سیکھ کر بہت ساری لڑکیاں اپنے گھر خراب کر رہی ہیں۔ اپنے خیالوں میں امیر زادوں کے خواب بسا کر اور انہی ڈراموں سے سیکھ کر اپنی عزتوں کو داؤ پر لگا رہی ہیں۔ ان ڈراموں میں زیادہ تر اپر کلاس اور الٹرا ماڈرن لوگوں کی کہانیاں پیش کی جاتی ہیں۔ لوئر یا مڈل کلاس کی کہانیاں بہت کم دکھائی جاتی ہیں۔ اس طرح دکھایا جانے والا ڈرامہ کسی بھی طرح ہماری دھرتی کے کلچر کی نمائندگی نہیں کرتا۔
ایک وہ بھی وقت تھا جب ہمارا ٹی وی ڈرامہ اپنے موضوعات کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور تھا۔ ٹی وی ڈراموں کا ہماری زندگیوں میں بڑا اہم کردار ہوا کرتا تھا۔ زندگی کی حقیقی تصویر دکھانے والے ڈرامے اور سبق آموز کہانیاں دیکھ کر عوام کئی کئی دن کہانی کے ٹرانس سے نہیں نکل پاتے تھے۔ ہمارا ڈرامہ اپنے اندر ایک تہذیب سمائے ہوتا تھا جو نام نہاد تخلیق کاروں کے ہاتھوں آج دم توڑتی نظر آتی ہے۔

ڈرامے کے زوال کی سب سے بڑی وجہ ڈرامے کے اسکرپٹ کا گرتا ہوا معیار ہے۔ آج ہمارے ملک کے نامور اور مشہور ڈرامہ نگار منظر سے غائب نظر آتے ہیں جو نئے اور اچھے اسکرپٹ رائٹرز ان حالات میں کوئی معیاری اور اچھا ڈرامہ لکھنے کی جرات دکھاتے ہیں، ان کو بھی نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ ہمیں عمدہ کام کے لیے قابل افراد کو چننا پڑتا ہے، اور قابل افراد کی پاکستان میں کوئی کمی نہیں، اور ایک قابل انسان ہی کسی دوسرے قابل انسان کی شناخت کر سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح اصل ہیرے کی پہچان صرف جوہری کو ہی ہوتی ہے۔
ہمارے ہاں اکثر ٹی وی چنیلز نہ صرف غیر معیاری ڈارمے بنانے اور دکھانے میں پیش پیش ہیں بلکہ رہی سہی کسر پوری کرنے کے لیے انڈین ڈراموں کو آن ائیر کرنا بھی اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔ ہماری ٹی وی اسکرینوں پر چلنے والے انڈین مواد سے ہماری قومی روایات اور نوجوان نسل کے ذہنوں پر پڑنے والے اثرات کے باعث ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہ بھی مخالف طاقتوں کی سازشوں کا المناک المیہ ہے۔
ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔۔۔ سوچ بدلے گی تو بدلے گا پاکستان۔