مدرز ڈے
12/05/2024
ہم اکثر مغربی ممالک میں منائے جانے والے رشتے ناطے کے نام سے منسوب دن منانے کا سنتے رہتے ہیں۔ بازاروں میں کپڑوں، جوتوں، جیولری شاپس غرض ہر طرح کیladies accessories پر سیل کے بڑے bill boards چسپاں نظر آتے ہیں۔ میری بھی تجسس کی حس حرکت میں آئی کہ یہ جاننا چاہئیے کہ اس دن کو منانے کی بنیاد کس نے ڈالی اور کیوں؟؟؟
مدرز ڈے 1908ء میں اینا جاروِس نے اپنی ماں کی یاد میں گریفٹن، ویسٹ ورجینیا کے اینڈریو میتھڈسٹ چرچ میں منایا، جہاں آج انٹرنیشنل مدرز ڈے کی علامت کے طور پر ایک مزار موجود ہے۔ اینا جاروِس نے امریکا میں مدرز ڈے منانے کی کمپیئن 1905ء میں ہی شروع کردی تھی، اسی سال ان کی ماں اینا ریوس کاانتقال ہوا تھا۔ اینا جاروِس امن کی علمبردار ایک ایکٹیوسٹ تھیں، جو امریکن سول وار کے دوران زخمی فوجیوں کی تیمار داری اور مرہم پٹی کرتی تھیں۔
انھوں نے مدرز ڈے ورک کلب بھی قائم کیا تاکہ لوگوں تک صحت عامہ کے مسائل کی آگاہی پہنچا سکیں۔ اینا جاروِس کا مقصد اپنی ماں کو عزت و احترام دلوانا اور کم از کم ایک دن مائوں کے نام کروانا تھا، جو اپنی ساری زندگی بچوں کی پرورش اور انہیں عمدہ شہری بنانے میں مدد دیتی ہیں۔ اینا کا یقین تھا کہ ماں ہی وہ ہستی ہے جو آپ کے لیے اس دنیا میں سب سے زیادہ کوششیں کرتی ہے۔
ہر سال مائوں کا عالمی دن منانے کے لیے مختلف ممالک میں ایک ہی دن مختص نہیں ہے۔ پاکستان اور اٹلی سمیت مختلف ملکوں میں یہ دن مئی کے دوسرے اتوار کو منایا جاتا ہے، جبکہ کئی دیگر ممالک میں یہ دن جنوری، مارچ، اکتوبر یا نومبر میں منا کر مائوں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ تاہم اس دن کو منانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ماں کی عظمت و اہمیت کو محض ایک دن تک محدود کردیا جائے کیونکہ اس ہستی نے بھی صرف ایک دن ہمارا خیال نہیں رکھا بلکہ جوان ہونے اور شادی شدہ ہونے کے بعد بھی اپنے بچوں اور بچوں کے بچوں کا خیال رکھتی چلی آتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں بھی فادرز ڈے اور مدرز ڈے منائے جا رہے اور ہمارے معاشرے میں بھی اولڈ ہومز بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ وہ معاشرہ جہاں ماں کے قدموں تلے جنت اور جہاں باپ کی رضا میں رب کی رضا ہوا کرتی تھی آج وہی معاشرہ اس جنت اور اس رضائے ربانی سے دامن بچاتا نظر آتا ہے۔ تقلید بری بات نہیں لیکن اندھی تقلید دین میں ہو یا دنیا میں مہلک ہوا کرتی ہے۔ مغرب کی اندھی تقلید ہمیں بھی مہلک مقام تک لے آئی ہے جس سے ہماری عائلی قدریں پامال اور معاشرے کی بنیادی اکائی یعنی خاندان کی چولیں ڈھیلی ہو رہی ہیں۔ اس اکائی کی بنیاد اور جڑ یعنی والدین کو گھروں سے اکھاڑ کر اولڈ ہومز میں پھینکا جا رہا ہے، پھر سال کے بعد ان کا ایک دن منا کر حق ادا کر دیا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اسلام کے نزدیک مدر ڈے کا تصور کیا ہے؟ اس کا مختصر جواب تو یہ ہے کہ اسلام میں تو ہر لمحہ اور ہر دن مدر ڈے اور فادر ڈے ہے۔ اس تصور کو مزید سمجھنے کے لیے والدین کی عزت، تکریم اور خدمت کے پس منظر میں قرآن پاک کی ایک آیت کریمہ اور چند احادیث پیش ہیں۔
وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًاO وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًاO
(بني اسرائيل، پارہ 17 : آیات 23، 24)
ترجمہ: ’’اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم ﷲ تعالی کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ’’اُف‘‘ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو۔ اور ان دونوں کے لیے نرم دلی سے عجز و اِنکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (ﷲ تعالی کے حضور) عرض کرتے رہو : اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھاo‘‘
قرآن پاک کے بعد معتدد احادیث پاک میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بزرگوں کی عزت و تکریم کی تلقین فرمائی اور بزرگوں کا یہ حق قرار دیا کہ کم عمر اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کا احترام کریں اور ان کے مرتبے کا خیال رکھیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ليس منا من لم يرحم صغيرنا ويؤقر کبيرنا.
’’وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔‘‘
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ان من إجلال اﷲ إکرام ذي الشيبة المسلم، و حامل القرآن غير الغالي فيه، و الجافي عنه، و إکرام ذي السلطان المقسط.
’’بوڑھے مسلمان کی تعظیم کرنا اللہ تعالیٰ کی تعظیم کا حصہ ہے، اور اسی طرح قرآن مجید کے عالم کی جو اس میں تجاوز نہ کرتا ہو اور اس بادشاہ کی تعظیم جو انصاف کرتا ہو۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ما أکرم شاب شيخا لسنه إلا قيض اﷲ له من يکرمه عند سنه.
’’جو جوان کسی بوڑھے کی عمر رسیدگی کے باعث اس کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس جوان کے لیے کسی کو مقرر فرما دیتا ہے جو اس کے بڑھاپے میں اس کی عزت کرےگا‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یارسول اللہ! لوگوں میں حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا : تمہاری والدہ۔ انہوں نے عرض کیا : پھر کون ہے؟ فرمایا : تمہاری والدہ۔ انہوں نے عرض کیا : پھر کون ہے؟ فرمایا : تمہاری والدہ۔ انہوں نے عرض کیا : پھر کون ہے؟ فرمایا : پھر تمہارا والد ہے۔
اسلام میں والدین کے حقوق کا تصور بڑا واضح ہے۔ دوسری طرف آج جو ہم مدر اور فادر ڈے منا کر مغربی روایات کو فروغ دے رہے ہیں تو یہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دین تو نہیں ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دین میں تو ماں باپ کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ وہ گھروں کے تاحیات سربراہ ہوا کرتے ہیں ان کی معزولی کا کوئی تصور موجود نہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دین کے ماننے والوں کو اس کا بھی حساب اسی طرح دینا ہے جس طرح نماز روزے اور زکوۃ و حج کا۔ اگر کوئی یہ چاہے کہ وہ نماز روزہ تو محمد کے دین کا لے لے اور والدین کے بارے میں فادرز ڈے اور مدرز ڈے منانے والوں کا تصور لے لے تو یہ تو اس کا اپنا اختراعی دین ہو گا نہ کہ اسلام۔ والدین کی خدمت کے بغیر محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دین ادھورا ہے۔ اور محمد کے رب کا فیصلہ یہ ہے کہ اسے ادھورا دین منظور نہیں۔
کاش ہم دین میں اس رخنہ سازی کو ترک کر دیں تو پھر محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دین اسلام کو کسی غیر مسلم سے خطرہ نہیں ہو گا۔ حقیقت میں ہم اسی دوغلے پن سے دین کو کمزور اور خود کو دنیا کی محکوم قوم بنا رہے ہیں۔