علم خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے

11/05/2024

اللہ پاک نے قرآن مجید میں فرمایا: هٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَهُدًى وَّ مَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ۔ 
ترجَمۂ : یہ لوگوں کو بتانا اور راہ دکھانا اور پرہیزگاروں کو نصیحت ہے۔(پارہ 4، آل عمرٰن: آیت# 138)

قرآنِ پاک کو اللہ تعالیٰ نے ہماری ہدایت اور نصیحت کیلئے نازل فرمایا، آئیے! ان نصیحتوں کے بارے میں کچھ باتیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں جن کا ذکر اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا۔

(1) اہم کاموں میں مشاورت: وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓیكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- 
ترجَمۂ: اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔(پارہ1، البقرۃ: آیت #30)

اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اس کو کسی سے مشورہ کی حاجت ہو، البتہ یہاں خلیفہ بنانے کی خبر فرشتوں کو ظاہری طور پر مشورے کے انداز میں دی گئی۔ اس سے اشارۃً معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے اپنے ماتحت افراد سے مشورہ کر لیا جائے تاکہ اس کام سے متعلق ان کے ذہن میں کوئی خلش ہو تو اس کا ازالہ ہو جائے یا کوئی ایسی مفید رائے مل جائے جس سے وہ کام مزید بہتر انداز سے ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرنے کا حکم دیا، جیسا کہ سورۂ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: 
وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ۔ 
ترجَمۂ: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔ (آل عمران: آیت # 159)

(2) علم دین کا حصول: وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓیكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(البقرہ، آیت#31) 
ترجَمۂ: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پارہ1، البقرۃ: آیت #31)

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام پر تمام اشیاء پیش فرمائیں اور بطورِ الہام آپ کو ان تمام چیزوں کے نام، کام، صفات، خصوصیات، اصولی علوم اور صنعتیں سکھا دیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے فرشتوں پر افضل ہونے کا سبب علم ظاہر فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور پرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے ابو ذر! تمہارا ا س حال میں صبح کرنا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ایک آیت سیکھی ہو، یہ تمہارے لئے 100 رکعتیں نفل پڑھنے سے بہتر ہے اور تمہارا اس حال میں صبح کرنا کہ تم نے علم کا ایک باب سیکھا ہو جس پر عمل کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو، تو یہ تمہارے لئے 1000نوافل پڑھنے سے بہتر ہے۔

(3) تکبر کی مذمت: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓیكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(البقرہ آیت #34) 
ترجمۂ: اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔

(4) گناہوں کے بعد توبہ کرنا:

وَ قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا۪-وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(البقرہ، آیت # 35) فَاَزَلَّهُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِیْهِ۪-وَ قُلْنَا اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّۚ وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ(آیت #36) فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(آیت # 37) 
ترجمۂ: اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بیوی اس جنت میں رہو اور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہوجاؤ گے۔ تو شیطان نے جنت سے انہیں لغزش دی اور جہاں رہتے تھے وہاں سے انہیں الگ کر دیا اور ہم نے فرمایا نیچے اترو آپس میں ایک تمہارا دوسرے کا دشمن اور تمہیں ایک وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور برتنا ہے۔ پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔

حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے اپنی دعا میں یہ کلمات عرض کئے: رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۔ 
ترجمۂ: اے رب ہمارے ہم نے اپنا آپ برا کیا تو اگر تُو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے ۔(پارہ 8، الاعراف:آیت # 23)

(5) شیطان کے فریب سے بچنا:وَ لَقَدْ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا۠۔
 ترجَمۂ: اور بےشک ہم نے آدم کو اس سے پہلے ایک تاکیدی حکم دیا تھا تو وہ بھول گیا اور ہم نے اس کا قصد نہ پایا۔(پارہ 16، طہ: آیت# 115)

اس سے پہلے سورۂ بقرہ، سورۂ اَعراف، سورۂ حجر، سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ کہف میں مختلف حکمتوں کی وجہ سے حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام اور ابلیس کا واقعہ بیان ہوا اور اب یہاں سے چھٹی بار ان کا واقعہ بیان کیا جا رہاہے اور اسے ذکر کرنے میں یہ حکمت بھی ہو سکتی ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے شیطان انسانوں کا بڑا پرانا دشمن ہے اس لئے ہر انسان کو چاہئے کہ وہ شیطان کی فریب کاریوں سے ہوشیار رہے اور اس کے وسوسوں سے بچنے کی تدابیر اختیار کرے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں قرآن پاک کی ان نصیحتوں پر عمل کرکے اپنی دنیا و آخرت کو بہتر بنانے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔