کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی
27/04/2024
نیشنل کالج آف آرٹس کے صدر دروازے کی پیشانی پر شیخ سعدی کا یہ مصرعہ درج ہے “کسبِ کمال کُن کہ عزیزِ جہاں شوئی”۔ 134یا 135 برس سے فنون کی تدریس کے اس کالج نے سعدی کے اس مصرعے کو motto کے طور پر اپنایا ہوا ہے۔
فارسی کی اس ضرب المثل کا مطلب یہ ہے کہ: “صاحب کمال ہی کو عزت ملتی ہے”۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے قدرت کے کارخانے میں تنوع اور ندرت کے اصول قائم کیے ہیں، بالکل اسی طرح انسانوں میں بھی عقل وشعور اور فراست و ذہانت میں واضح فرق رکھا ہے۔ ہر انسان دوسرے سے شکل کے علاوہ دانش و ذکاوت اور دیگر صلاحیتوں میں مختلف ہوتا ہے۔ لوگوں نے اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیم وتدریس کے شعبے میں بھی اصلاحات کی ہیں۔ ابتدائی کلاسوں میں ایک جیسے مضامین کے بعد کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر درجہ بندی کر دی جاتی ہے اعلیٰ دماغ اور ادراک کے حامل طلباء کو ماسٹر اور پی ایچ ڈی کے لئے منتخب کیا جاتا ہے، جبکہ اوسط ذہانت کے طالب علموں کو عموماً میٹرک لیول کے بعد مختلف قسم کے ہنر سکھانے کیلئے الگ کر دیا جاتا ہے اور وہ مخصوص شعبوں اور پیشوں میں مہارت حاصل کرکے ملک کی تعمیر و ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کوئی جامع پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ایسے بیشتر طالب علم مناسب تعلیم و ٹریننگ سے محروم رہ جاتے ہیں اور وہ مہارت نہیں حاصل کرسکتے جس کے وہ اہل تھے۔ ان شعبوں میں میڈیکل، انجینئرنگ، کمپیوٹر، ٹرانسپورٹ، زراعت، تعمیراتی کام و ذیلی ٹیکنالوجی، دستکاری، چھوٹی صنعتیں، آٹو انڈسٹری و دیگر بے شمار ہنرمندی اور کاریگری کے کام شامل ہیں۔ ہمارے ارباب حکومت، خصوصاً محکمہ تعلیم کے کار پروازوں کو اس بارے میں ایک ٹھوس اور جامع پالیسی بناکر اپنی نوجوان افرادی قوت کو وطن کی ترقی کے دھارے میں لانا چاہیے۔ اس شعبے پر توجہ دینے سے نہ صرف روزگار اور کاروبار کے مواقع میں اضافہ ہوسکتا ہے بلکہ ہنر مند افراد کے بیرون ملک جانے سے قیمتی زرمبادلہ کی آمد کی شرح میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے جس کی اس وقت ملک کو اشد ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو فنی تعلیم میں روایتی ہنر سکھانے کے ساتھ ساتھ تھری ڈی ڈیزائننگ، فیشن ڈیزائننگ، انفارمیشن ڈیزائن، الیکٹریکل اپلائسنسز اور سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ویب ڈویلپنگ جیسے مفید شعبوں میں تربیت دیئے جائیں تو نہ صرف حصول روزگار کی آسانی ہوگی بلکہ دوسروں پر انحصار بھی کم ہوگا۔ سولہ اور اٹھارہ سال لگا کر نوجوان جس غیر یقینی اور مستقبل کے خدشات میں گھرے فارغ التحصیل ہوتے ہیں اگر کسی شعبے میں ڈپلومہ حاصل کرکے اگر وہ کام شروع کریں گے تو وہ اپنے ہم عصر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں سے کسی طور بھی پیچھے نہیں رہیں گے۔ چینی زبان کا ایک مقولہ ہے کہ آدمی کو مچھلی نہ دو بلکہ اسے مچھلی پکڑنا سکھاؤ دنیا کے جن ممالک میں طالب علموں کو مچھلی پکڑنا سکھانے کے فارمولے پر عملدرآمد کیا گیا اس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے لیکن ہم آج بھی ان کے تجربات سے سیکھنے اور ان کا طریقہ کار اختیار کرنے پرتیار نہیں جب تک ہمارا نظام تعلیم یادداشت کا امتحان اور روایتی چند ایک پیشہ ورانہ تعلیم اور موجودہ صورتحال جاری رہے گی ہمیں اس دلدل سے نکلنے کی راہ کبھی نہیں مل سکے گی۔ اس دلدل سے نکلنا ہے توچین، جاپان، ہنگری، جرمنی اور آسٹریا جیسے ممالک کی تقلید کرنی پڑے گی یادداشت کو علم سمجھنے کی بجائے عملی اور فنی تعلیم و تربیت کو اپنا کر ہی بہتر ی کی طرف گامزن ہوا جاسکے گا دوسری کوئی صورت نظر نہیں آتی۔