قطرہ آب وضوئے قنبرے در بہا برتر زخون قیصرے

31/04/2024

اللہ تعالی کے نزدیک بلندی مراتب رفع درجات کا ذریعہ ایمان اور علم ہے۔ ایک ایماندار شخص نادار و مفلس ہی کیوں نہ ہو، کافر رئیسوں/ظالموں سے اس کا درجہ اللہ تعالی کی جناب میں بہت بلند ہے۔
فلسطین کے علاقے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو پانچ ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب اسرائیلی فوج نے نہتے فلسطینیوں پر آتش و آہن کی بارش نہ کی ہو۔ چند ہفتے قبل عارضی جنگ بندی ہونی تھی، لیکن پھر جب اسرائیلی بندوقوں نے گولیاں اور لانچرز سے میزائل اگلنے شروع کئے تو یہ لامتناہی کرب و بلا کا سلسلہ تھمنے میں ہی نہیں آرہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس یک طرفہ جنگ میں اب تک 30 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور کم و بیش 70 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ جو اسرائیل کے اندھا دھند حملوں میں بچ گئے ہیں، انہیں خوراک اور روزمرہ استعمال کی ضروری اشیاء کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ اسرائیل کی جنگی وحشت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ پناہ گزین کیمپوں اور امداد کے حصول کے لئے کوشاں فلسطینیوں کو بھی گولیوں اور میزائل حملوں کا نشانہ بنا رہا ہے۔
غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے خلاف دنیا بھر سے احتجاج کئے جا رہے ہیں۔ بعض مسلم ممالک میں کچھ افراد یا تنظیموں نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ کچھ ممالک کی جانب سے رمضان المبارک میں جنگ بندی کی کوششیں کی جارہی ہیں، جن میں انہیں اب تک کامیابی نہیں ملی ہے۔ کچھ اقوام اور اداروں کی جانب سے فلسطینی پناہ گزینوں کے لئے خوراک، پانی اور ادویات کی فراہمی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ یہ تمام تر ترسیلات پہنچانے کا واحد ذریعہ UNO اور Red Crescent تنظیمیں مصر، اردن اور پاکستان کی طرف سے الخدمت فاؤنڈیشن یہ تمام امور بذریعہ مصر کے بارڈر سے غزہ کے بارڈر پر یہ رسد بہم پہنچا رہے ہیں۔ یہ اقدامات قابل قدر اور قابل تحسین ہیں۔ لیکن ضرورت عارضی جنگ بندی کی نہیں بلکہ مستقل طور پر جنگ بند کروانے کی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ عالمی امن کے ذمہ دار افراد اور اداروں کی جانب سے وہ کوششیں نظر نہیں آتیں جو وقت کا تقاضا اور حالات کی ضرورت ہیں۔
کوئی مانے یا نہ مانے لیکن حقیقت یہی ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے تنازع کو ان حالات تک پہنچانے کی ذمہ دار وہ عالمی طاقتیں ہیں جو اس مسئلے کے مناسب اور جائز حل میں کردار ادا کر سکتی تھیں، لیکن انہوں نے یہ کردار ادا نہیں کیا۔
گزشتہ 75 برسوں میں سب نے دیکھا کہ اسرائیل کی بے جا حمایت اور مالی امداد کی جاتی رہی۔۔۔ اسے ترقی دی جاتی رہی۔۔۔اور اس کے وسائل میں اضافہ کیا جاتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اسرائیل کی قیادت کسی کی کوئی بات اور مشورہ سننے کو تیار نہیں۔ 1948 میں جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کی تقسیم اور فلسطین کے علاقے میں اسرائیل نامی ریاست کے قیام کے منصوبے کی منظوری دی تھی، تو اس منصوبے میں طے کی گئی حدود کے مطابق ہی اسرائیل کو علاقہ تفویض کیا جاتا، لیکن ہوا یہ کہ منصوبے کی منظوری دینے کے بعد اسرائیل کو کھلا چھوڑ دیا گیا۔ اور وہ پچھلے 75 برسوں سے مسلسل اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل میں مصروف ہے۔وہ فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر کے وہاں یہودی بستیاں آباد کر رہا ہے۔ دوسری جانب فلسطینی عوام پیچھے ہٹتے ہٹتے اور پسپا ہوتے ہوتے ایک طرح سے دیوار کے ساتھ جا لگے ہیں۔ اور ان کے پاس مزید پیچھے ہٹنے کا کوئی راستہ باقی نہیں بچا۔
اگر دنیا کی بڑی طاقتیں اسرائیلی قیادت کو سیدھا کرنا چاہیں تو ایک منٹ میں کر سکتی ہیں۔ کیونکہ اسرائیل عالمی برادری سے کوئی الگ وجود نہیں ہے، بلکہ اسی بین الاقوامی کمیونٹی کا حصہ ہے۔ آج اگر امریکہ اسرائیل کی حمایت بند کردے اور پورپی یونین اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دے تو کیا اسرائیل کے لئے اپنی معاشی بقا کا کوئی سامان باقی رہ جائے گا؟؟؟
لیکن سب مہر بلب ہیں اور تماشا دیکھ رہے ہیں۔ فلسطینیوں کو مرتا ہوا دیکھ رہے ہیں، لیکن ان کے لئے عملی طور پر کچھ کرنے کے لئے اسرائیل کا ہاتھ روکنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔