عفو و درگذر کی اس سے بڑی اور کیا مثال ہو گی
30/03/2024
ایک جری اور طاقت ور مرد ہونے کے باوجود اس نے اپنے چہرے کو عورتوں کی طرح نقاب سے ڈھانپ رکھا تھا۔
اس کے گہرے سانولے۔۔۔۔ مگر لمبے اور مضبوط جسم پر کپکپی طاری تھی ۔۔۔ چلتے چلتے۔۔۔ کبھی کبھار اس کے پاؤں بھی لڑکھڑانے لگتے تھے۔
یہ مضبوط پاؤں۔۔۔ جو کبھی میدان جنگ میں اترتے تھے تو رن کانپ اٹھتا تھا۔
مگر آج۔۔۔ ایک دھیمے سے “التجا نما حکم” نے ان مضبوط پیروں سے گویا جان نکال دی تھی۔
عفو و درگذر۔۔۔ اتنے خطرناک ہتھیار ثابت ہونگے۔۔۔ یہ تو اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
میدان جنگ سے واپسی پر درجنوں زخم لگنے کے باجود اس نے اپنے آپ کو کبھی اتنا مضمحل محسوس نہ کیا تھا۔ جتنا آج ان کی معافی کے بعد اس “التجا نما حکم” نے کردیا تھا۔
اس کا جی چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹ جائے۔۔۔ اور وہ اس میں سما جائے۔
اسے وہ وقت یاد آنے لگا جب اس کے آقا نے۔۔۔ اس پر غراتے ہوئے اسے…. “آزاد زندگی” کی آفر دی تھی۔
“اگر تو نے حمزہ کو مار ڈالا ۔۔۔۔ تو یاد رکھ۔۔۔ آزادی۔۔۔۔۔ تیرا مقدر ہوگی”
یہ وہ الفاظ تھے جنہیں سنتے ہی۔۔۔ وہ کچھ دیر کیلئے گنگ ہوگیا تھا۔
بس ایک انسانی جان،
اور پھر ساری زندگی کا سکھ،
اپنے ظالم آقا کی بک بک جھک جھک سے مکمل آزادی،
اپنی مرضی کی زندگی۔
آج پہلی بار اس نے اپنے آقا کے منہ سے کوئی آفر سنی تھی۔۔۔۔ اوروہ بھی اتنی بڑی آفر۔
گہری سانولی جلد میں چھپی اس کی رگوں میں دوڑتے خون کی رفتار تیز ہوگئی تھی۔
یہ الفاظ۔۔۔ تو گویا اس کی بےپناہ خوشیوں بھری زندگی کی ضمانت تھے۔
اور اس کیلئے تو یہ کام بہت آسان بھی تھا۔
وہ ایک ماہر نشانے باز تھا۔
لمبے بانس پر بندھی نیزے کی انی کی چمک۔۔۔۔ اس کی آنکھ کے اشاروں پر ناچتی تھی۔ وہ جہاں سوچتا تھا۔۔۔ اس کا نیزہ وہیں سے گذرتا تھا۔
پورے مکہ میں اس کے کرتب کی دھوم تھی۔
جھولتے ہوئے رسی کے پھندوں کے درمیان سے نیزہ گذار دینا اس کا سب سے مشہور کرتب تھا۔
ایک بار تو عکاظ کے میلے میں اس نے رقص کرتی ہوئی حبشی رقاصہ کے سر پر لگے آہنی کڑے میں سے بھی اسے زخمی کئے بغیر نیزہ گذار دیا تھا۔
اس کی نیزہ بازی کا شہرہ دور دور تک پھیل گیا تھا۔
مگر بدقسمتی سے وہ ایک غلام تھا۔
مکہ کے مشہور سردار جبیر بن مطعم کا غلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جبیر کے ان الفاظ نے اس کے جسم میں نئی روح پھونک دی تھی۔
وہ جانتا تھا کہ جنگ بدر میں مسلمانوں کے سردار حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں جبیر کا چچا مارا گیا ہے۔ اور جبیر ہر صورت اب امیر حمزہ سے بدلہ لینا چاہتا ہے۔
یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنے غلام سے آزادی کے عوض امیر حمزہ کی یقینی شہادت طلب کی تھی۔
احد کا میدان سج چکا تھا۔
غلام کو دونوں گروہوں میں سے کسی سے کوئی ہمدردی نہ تھی۔ وہ جانتا تھا کہ ایک غلام کو بس۔۔۔۔ غلام ہی رہنا ہوتا ہے۔
سو گھمسان کی جنگ کے دوران بھی وہ بس۔۔۔۔ اپنا نیزہ اٹھائے ایک چھوٹی سی پہاڑی پر گھات لگائے سکون سے جنگی معرکہ دیکھ رہا تھا۔
مسلمانوں کا پلہ بھاری پڑ رہا تھا۔
حمزہ۔۔۔!
ہمت ہے تو سامنے آؤ مجھ سے لڑو
غلام نے چونک کر مشرکین مکہ کے سردار سباع کی جانب دیکھا، جس نے ابھی ابھی حضرت امیر حمزہ کو دعوت مبارزت دی تھی۔
غلام سنبھل کر بیٹھ گیا۔ اس کے ہاتھوں کی گرفت اپنے نیزے پر مضبوط ہوگئی۔
سباع کے للکارنے پر حضرت امیر حمزہ دوسرے مشرکین کو چھوڑ کر تیزی سے اس پر جھپٹے اور اسے سنبھلنے کا موقع بھی نہ دیا اور ایک ہی وار میں مغرور سباع کا کام تمام کردیا۔
سباع کا تڑپتا لاشہ گھوڑے سے نیچے گرا۔۔۔۔ تو
اسی لمحے امیر حمزہ واپس پلٹ گئے۔
یہی وہ وقت تھا جب غلام کے ہاتھوں سے نیزہ بجلی کی طرح نکلا اور سیدھا حضرت امیر حمزہ کی ناف میں اترتا ہوا جسم اقدس پار کرگیا۔
انہوں نے حیرانگی سے پہاڑی پر کھڑے جبیر کے غلام کو دیکھا۔ جس کی آنکھوں میں آزادی کی چمک لہرا رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرحبا۔۔۔ تو تم ہو وہ غلام۔۔۔۔ جو حمزہ کو مارنے کے بعد آزاد ہوئے ہو۔
ھندہ نے غلام کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرا کر کہا۔
اور غلام۔۔۔ آزاد ہونے کے باوجود ہاتھ باندھ کر فخر سے مسکرادیا۔
میں تمہیں اتنی دولت دوں گی کہ تم اپنی باقی زندگی کسی بھی سرسبز مقام پر بنا کسی محنت کے رہ سکو گے۔۔۔۔ بس ایک بار۔۔۔ مجھے حمزہ کی لاش کے پاس لے جاؤ۔
آخری جملہ کہتے ہوئے ھندہ نے دانت کچکچائے۔
غلام نے سر کو جھکایا اور ھندہ کو ساتھ لے کر میدان جنگ کی جانب لے چلا جہاں مسلمان ابھی کچھ دیر پہلے ہی پسپا ہوئے تھے۔
ھندہ نے امیر حمزہ کی لاش کو نفرت سے دیکھا
اور پھر جسم اطہر چاک کر کے ان کا کیلجہ ڈھونڈنے لگی۔ تاکہ اسے چبا کر اپنی قسم پوری کرسکے۔
بربریت سے بھرے اس منظر کو دیکھ کر غلام نے ایک مرد ہوتے ہوئے بھی جھرجھری لی اور اپنا منہ دوسری جانب پھیر لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزاد ہونے کے بعد کسی نے بھی اس حبشی غلام کو مکہ میں نہیں دیکھا۔ کیونکہ اب اسے مسلمانوں کی جانب سے انتقام کا خطرہ تھا۔
اسلئے وہ طائف کے سرسبز مقام پر روپوش ہوگیا۔ جو عرب کے بدمعاش اور شریر لوگوں کیلئے جنت کی حیثیت رکھتا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت گذرا اور مسلمان مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے گئے۔
بالآخر مکہ فتح ہوگیا۔
عام معافی کا اعلان ہوا
طائف میں بھی سب نے اس اعلان کو حیرت سے سنا۔
یہ کیسے ممکن ہے؟
مسلمان تو اب ایک بڑی سپر پاور بن کر ابھرے ہیں۔
عرب کا مرکزی شہر مکہ تک ان کے قبضے میں ہے۔
یہ کون فاتح ہے؟ جو در و دیوار کو فتح کرنے کے بعد اب دلوں کو بھی فتح کرنے چلا ہے؟
جس نے سنا اس نے دل پر ہاتھ رکھ لیا فرط عقیدت سے اس ہستی کا نام لے کر انگوٹھوں کو چوم لیا۔۔۔۔ کہ عرب بدوؤں کا اظہار عقیدت ایسا ہی تھا۔
ابو وہمہ۔۔۔! کیا تم نے سنا؟
وہ سب کو معاف کردیتے ہیں۔۔۔ تم بھی ان کے سامنے کیوں نہیں چلے جاتے؟
مگر ابو وہمہ کے دل میں خوف تھا۔۔۔۔ آخر اس نے مسلمانوں کے نبی کے عزیز ترین چچا کو شہید کیا تھا۔ اسے معافی کیسے مل سکتی تھی بھلا؟
نہیں۔۔۔۔ میں ان کے سامنے نہیں جاؤں گا۔
اس نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔
مگر۔۔۔ ایسے کب تک روپوشی کی زندگی گزارو گے؟ مسلمان ہر جگہہ پہنچ رہے ہیں۔ کل کلاں کو طائف بھی پہنچ جائیں گے۔۔۔ بلکہ خود طائف کے بھی کئی افراد اسلام قبول کرچکے ہیں۔ تمہاری جان کو یہاں بھی خطرہ ہے۔
تم طائف کے وفد کا حصہ بن کر سامنے کیوں نہیں جاتے؟ سفیروں کو مارنا تو ویسے بھی اخلاقی جرم ہے۔
ہاں۔۔۔ یہ ٹھیک رہے گا۔
ابو وہمہ کو یہ تجویز پسند آئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو تم ہو وحشی ابن حرب؟
زبان نبویﷺ سے ابو وہمہ کی بجائے اپنا اصل نام سن کر اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔
جج۔۔۔ جی سرکار۔۔۔ میں ہی ہوں۔۔۔ جس نے آپ کے چچا کو قتل کیا۔۔۔ میں ہی ہوں جو ھندہ کو وہاں تک لے کر گیا۔
اس نے کانپتے لہجے میں اپنے جرم کا اقرار کیا۔
امان ہے۔۔۔۔ تم کو بھی امان ہے۔
شفیق و مہربان لہجے میں معافی کا اعلان ہوا۔ تو اس کی جان میں جان آئی۔ اس نے باآواز بلند کلمہ پڑھا۔
سنو وحشی۔۔۔!
جی سرکار۔۔۔ اس نے ادب سے ہاتھ باندھ کر سر جھکا دیا۔
غلامی میں بھی اتنا سرور ہوسکتا ہے۔۔۔ یہ تو اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
تم نے کلمہ پڑھ لیا۔
اللہ نے تمہارے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دیا۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔ تمہارا چہرہ۔۔۔ مجھے میرے عزیز چچا حمزہ کی یاد دلاتا ہے۔۔۔۔ ہوسکے تو اپنا چہرہ میرے سامنے مت لانا۔
آنسوؤں میں ڈوبی آواز۔۔۔ شفیق و مہربان نبی کی نہیں۔۔۔ بلکہ ایک غمزدہ انسان کی تھی۔
وحشی نے حکم کی تعمیل میں ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر کاندھے پر پڑے رومال سے اپنے چہرے پر نقاب ڈال لیا۔
واپسی پر ان کے گہرے سانولے مگر لمبے۔۔۔ اور مضبوط جسم پر کپکپی طاری تھی ۔۔۔ چلتے چلتے۔۔۔ کبھی کبھار ان کے پاؤں بھی لڑکھڑانے لگتے تھے۔
اللہ اللہ۔۔۔ میں اس احساس جرم سے کس طرح نکل پاؤں گا؟
یہ وہ سوال تھا جو وہ اپنے آپ سے کیا کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بخاری شریف میں مذکور ہے کہ
حضرت حمزہ رض کی شہادت کا جرم ان کے دل پر ایسا زخم تھا جو انھیں چین لینے نہیں دیتا تھا اور وہ قبولِ اسلام کے بعد سے برابر اس کی تلافی کی کوشش میں لگے ہوئے تھے،
آنحضرتﷺ کے وصال کے بعد جب مشہور مدعیِ نبوت مسیلمہ کذاب کا فتنہ اٹھا تو حضرت خالد بن ولید کی سربراہی میں جنگ یمامہ لڑی گئی۔
یہ کون گستاخ ہے۔۔۔ جو نبی آخرالزماںﷺ کی برابری کا دعوےدار بن بیٹھا ہے؟
وحشی ابن حرب بھی یہی سوچ کر لشکر کا حصہ بن گئے۔۔۔۔ کہ شاید۔۔۔ یہاں اپنے جرم کی تلافی کا موقع مل جائے۔
مسیلمہ کے قلعے کا دروازہ توڑ کر جب مسلمان اندر پہنچے تو حضرت خالد بن ولید نے مسیلمہ کو للکارا
او۔۔۔ اللہ کے دشمن کہاں ہے تو؟
مسیلمہ کو اپنے محافظوں کے درمیان کھڑا دیکھ کر خالد بن ولید نے اس کی جانب اپنا نیزہ پھینکا۔ مگر اس کے گرد کھڑے محافظوں نے نیزے کو درمیان میں ہی اڑا دیا۔
یہی وہ وقت تھا جہاں وحشی ابن حرب کی مہارت کام آئی۔
انہوں نے نہایت جوش سے کہا “اب وقت ہے کہ میں مسیلمہ کو قتل کرکے حمزہ کے خون کا کفارہ ادا کردوں”
چنانچہ وہی نیزہ جس سے حضرت حمزہ رض کو شہید کیا تھا، لے کر مسیلمہ کذاب پر ایسا وار کیا کہ نیزہ سینہ کے پار ہو گیا۔
اس طرح انہوں نے اسلام کے بہت بڑے دشمن کا خاتمہ کرکے اپنے تئیں حضرت امیر حمزہ کا خون بہا بھی ادا کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج 18 رمضان ہے۔
ماہ رمضاں کا آخری عشرہ شروع ہونے کو ہے۔ یہ وہی عشرہ ہے۔ جس میں وحشی ابن حرب نے اسلام قبول فرمایا۔
اور یہ وہی عشرہ ہے۔ جس میں سچی توبہ کرنے والوں کے گناہ۔۔۔ نیکیوں میں بدل دئے جاتے ہیں۔
بےشک۔۔۔ اللہ کریم ایمان اور توبہ کی توفیق دینے والا اور معاف فرمانے والا ہے۔
#writtenBy:
Sierra Tango
Ref: تاریخ طبری