ماہِ رَمضان کے فیضان کے کیا کہنے
19/03/2024
ماہِ رَمضان کے فیضان کے کیا کہنے ! اِس کی تو ہر گھڑی رَحمت بھری ہے،رَمضانُ المبارَک میں ہر نیکی کا ثواب70 گنا یا اس سے بھی زیادہ ہے۔(مراٰۃ، ج۳،ص۱۳۷)نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب 70گنا کردیا جاتا ہے ،عرش اُٹھانے والے فرشتے روزہ داروں کی دُعا پرآمین کہتے ہیں۔( فیضانِ رمضان، ص ۲۱) اللہ عَزّوَجَلَّکے محبوبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالی شان ہے:’’روزہ عبادت کا دروازہ ہے۔‘‘(اَلْجامِعُ الصَّغِیر، ص۱۴۶،حدیث۲۴۱۵) اِس ماہِ مُبارَک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہاللہ عَزّوَجَلَّنے اِس میں قراٰنِ پاک نازِل فرمایاہے۔ چنانچہ پارہ 2 سورۃ البقرۃآیت185 میں مقد س قراٰن میں خدائے رَحمٰن عَزَّ وَجَلَّ کا فرمانِ عالی شان ہے : شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ-فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ-وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ-یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘-وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۱۸۵)
تَرجَمَۂ کَنْزُ الْاِیْمَان:رَمضان کا مہینا ، جس میں قراٰن اُترا، لوگوں کے لئے ہدایت اور رَہنمائی اور فیصلے کی روشن باتیں ،تو تم میں جو کوئی یہ مہینا پائے ضرور اِس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو، تو اُتنے روزے اور دِنوں میں ۔اللہ عَزّوَجَلَّ تم پر آسانی چاہتا ہے اورتم پر دُشواری نہیں چاہتا اوراِس لئے کہ تم گنتی پوری کرواور اللہ عَزّوَجَلَّ کی بڑائی بولو اِس پر کہ اُس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو ۔
روزہ فرض عبادت ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے ’’اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے، جس طرح تم سے پہلی امّتوں پر فرض کیا گیا تھا، تاکہ تم متقّی اور پرہیزگار بن جائو۔‘‘(سورۃ البقرہ) یعنی روزے کا اصل مقصد متقّی اور پرہیزگار بننا ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں، تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الاعراف)امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت کعب ابن احبارؓ سے سوال کیا کہ ’’تقویٰ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے فرمایا ’’کیا آپ کبھی کانٹوں بھرے راستے پر چلے ہیں؟‘‘ حضرت عمرؓ نےاثبات میں جواب فرمایا، تو حضرت کعبؓ نے پوچھا ’’آپ نے اس راستے کو کیوںکر طے فرمایا؟‘‘ حضرت عمرؓ نے جواب دیا ’’ خود کو کانٹوں سے بچاکر سمٹ سمٹا کر۔‘‘ حضرت کعبؓ نے کہا ’’اے امیرالمومنین! یہی تقویٰ ہے، دنیا کانٹوں بھرے راستے کی مانند ہے اور اس سے بچ کر نکل جانا تقویٰ ہے۔‘‘ تقویٰ انسانی قلب و روح میں اس مثبت تبدیلی کا نام ہے، جس کے بل پر ہم اپنے نفس سے جہاد کرتے ہوئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہیں۔