اپنے گھر کو مضبوط قلعہ بنائیں

23/02/2024

يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُوا۟ رَبَّكُمُ ٱلَّذِى خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَٰحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَآءً ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ ٱلَّذِى تَسَآءَلُونَ بِهِۦ وَٱلْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ﴿1﴾

ترجمہ”لوگوں اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دئے اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کے بگاڑنے سے پرہیز کرو یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔(النساء: آیت# 1)
مندرجہ بالا آیت پر غور کریں تو آپ محسوس کریں گے کہ یہ سورت کنبہ یعنی خاندان کی اہمیت پر دلالت کرتی ہے۔
عورت چونکہ گھر اور نسل دونوں چلانے کی ذمے دار ہے۔ اس لیے اس کی فکری تربیت مزید اہم ہوجاتی ہے۔ گھر عورت کے صبر اور برداشت کے بل بوتے پر بنائے اور چلائے جاتے ہیں۔ ماں کی محبت اور قربانی کے باعث ہی اس کے اجر کو تین گنا رکھا گیا، جب کہ باپ معاش کمانے اور کفالت کا ذمے دار ہوتا ہے۔ اگر عورت کی تعلیم اسے یہ شعور نہیں دے پائے کہ اس کے حقیقی فرائض کیا ہیں، خاندان میں اس کا کردار کیا ہونا چاہیے، رشتوں کو نبھانے کےلیے کون سی صفات درکار ہیں، تو یہ تعلیم اسے مادی خوشحالی تو دے سکتی ہے لیکن اس کی روح حقیقی خوشی حاصل نہیں کرسکتی ۔

شوہر، بچے اور گھر  عورت کی فطری خواہش ہے اور اسی میں اس کا سکون اور خوشی پوشیدہ ہے۔ لیکن یہ امر تشویشناک ہے کہ آج معاشرہ میں  گھر ٹوٹنے کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔ اگرچہ اس میں محض عورت کی سوچ کی کمی کو ذمے دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا، کیونکہ رشتوں کو نبھانا دو طرفہ عمل ہے۔ لیکن مردوں کو بھی یہ سوچ گھر سے ہی مل سکتی ہے۔ جو ماں رشتوں کو نبھانے والی ہوگی، وہی اپنے بچوں کو یہ درس دے سکے گی۔ مہر اور وراثت کی ادائیگی سے ان کے حقوق کا تحفظ کریں۔ اللہ نے انہیں قوام بنا کر احترام، تحفظ اور نگرانی کا فرض سپرد کیا ہے۔ ان کی جانب سے عورتوں کی ذرا سی حوصلہ افزائی و شفقت کا معاملہ خاندان بھر کو رشتوں کی شیرینی عطا کرے گا۔ جس کا پھل وہ اور ان کی اگلی نسل چکھے گی۔ طاقت سے محض سر جھکائے جاسکتے ہیں جب کہ محبت سے دل فتح ہوجاتے ہیں۔ رشتوں کی خوبصورتی ایک دوسرے کی بات کو برداشت کرنے میں ہے۔ بے عیب انسان کی تلاش انسان کو تنہا کردیتی ہے۔
خاندان کو متحد رکھنا اشد ضروری ہے اور اس کیلئے ضروری ہے کہ خاندان کا ہر فرد کوشش کرے۔ خاندان کی خوبصورتی یکجہتی میں پوشیدہ ہے۔ ہر خوشی غمی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں، آن لائن ملنے کی بجائے آف لائن ملیں۔ آپس میں رابطے میں رہیں اس سے پیار و محبت بڑھتی ہے اور مزاج کی تلخی ختم ہی ہو جاتی ہے۔ پہلے تو خاندان کے تمام افراد اکھٹے ایک ہی گھر میں رہتے تھے لیکن جوں جوں زمانہ ترقی کرتا گیا اور تعلیم، صحت اور معاشی میدان میں لوگ آگے بڑھتے گئے اور معاشی ضرورتوں کی خاطر لوگ اپنے وطن/گھر سے دوسری جگہ منتقل ہوگئے، اور یوں نوکلیئر فیملی کا رجحان بڑھتا چلا گیا۔ بھلے آپ دور ہوں یا اکھٹے، پیار و شفقت کے بینر تلے اپنی اخلاقیات کی عمدہ اقدار کی روایات کو برقرار رکھیں۔ کہ یہی ہمارے مذہب کی تعلیمات ہیں۔ گھر میں یونیٹی ہوگی تو خاندان مضبوط ہو گا۔۔۔ اور خاندان مضبوط ہوگا تو معاشرہ خوبصورت گلدستہ نظر آئے گا۔ اپنے معاشرے اور ملک کو مضبوط بنائیں تاکہ آنے والی نسلیں بیرونی طاقتوں کے ہتھے نہ چڑھیں، بلکہ ایک آزاد اور خود مختار مملکت بن کر دنیا میں اپنا مقام بنائیں۔