فضائے بدر پیدا کر

20/02/2024

نیکی و بدی کا جو بھی فلسفہ ہو لیکن عالمگیر حقیقت یہی ہے کہ بدی کی تمام تر شر انگیزیوں کے باوجود غلبہ ہمیشہ نیکی کو ہی حاصل ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ بدی یا شیطانیت کمزور ہوتی ہے لیکن پھر بھی نیکی بدی پر غالب آکر ہی رہتی ہے۔ یہی وہ سچائی ہے جس کو دنیا میں بنائے یا دکھائے جانے والے بچوں اور بڑوں کے ڈراموں یا کھیل تماشوں میں دن رات تسلیم کیا جاتا ہے۔ میں نے آج تک کوئی فلم یا ڈرامہ ایسا نہیں دیکھا، جس میں آخری فتح کسی ظالم، غاصب، مغرور یا شیطانی ذہن رکھنے والے کی ہوئی ہو۔ اگر ڈراموں، کہانیوں یا دکھائی جانے والی جنگوں کا اختتام ظالم طاقتوروں کے غلبے کا دکھایا جانے لگے تو شاید ہی اسے کسی قوم کی جانب سے سراہا جائے، یا اس کے ختم ہونے کے بعد لوگ اس کے اختتام کی تعریف کرتے نظر آئیں۔ یہی انداز فکر اس بات کی علامت ہے کہ وہ “نیکی” ہی ہے جو بہرحال و بہرصورت غالب آ کر رہے گی۔ جس کے متعلق خود اللہ تعالی نے صاف صاف فرما دیا ہے کہ “حق آیا اور باطل مٹ گیا، اور باطل مٹ جانے کے لئے ہی ہے، تم غالب رہو گے اگر تم مومن ہو”۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ دنیا پر غالب ہونا تو نیکی کو ہی ہے لیکن اس کے لئے ایک چھوٹی مگر بڑی کڑی شرط یہ ہے کہ فاتحین سچے اور پکے مومن ہوں۔
ظلم و ستم کا بازار اس وقت تک گرم اور بظاہر غالب ہوتا نظر آئے گا جب تک وہ قوم جس پر ظلم کیا جا رہا ہو وہ جبر و ستم کا مقابلہ کرتے ہوئے گھبرا رہی ہو، جان دینے و لینے کا حوصلہ نہ پاتی ہو، ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کی مانند بکھری ہوئی ہو، اختلافات میں الجھ کر اپنوں کے ہی درپئے آزاد ہو اور ظالموں کے سامنے سجدوں میں پڑی ہوئی ہو، لیکن جیسے ہی ان میں سے کچھ لوگ یہ عہد کر لیتے ہیں کہ کچھ بھی ہو جائے میدان نہیں چھوڑنا، ڈٹے رہنا ہے، ہر ظلم و ستم برداشت کرنا ہے، لیکن ہار ہرگز نہیں ماننی ہے۔ تو وہیں سے ظالموں کی بازی پلٹنا شروع ہو جاتی ہے۔ لوگ ایسے دلیروں کے گرد جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں، تسبیح کے دانے عزم و ہمت کے دھاگے میں جمع ہو کر مالائیں بننے لگتے ہیں اور پھر انجام کار کائی کی طرح چھٹ جاتا ہے۔ کوئی بھی آئی بلا خود سے ٹلا نہیں کرتی اور کبھی کوئی بڑی کامیابی کڑی آزمائش جھیلے حاصل نہیں ہوا کرتی۔ دراصل وہی چند لوگ جو حق کے لشکروں کے سردار ہوتے ہیں اللہ کے نزدیک “مومن” ہوتے ہیں اور اللہ تعالی اپنے وعدے کے مطابق ان ہی لوگوں کو فتح و کامرانی عطا کرتا ہے۔
فلسطین میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان صرف نام کے مسلمان ہیں۔ جب کفر اور شر دنیا کے 57 مسلم ممالک اور 2 ارب کے قریب مسلمانوں پر حکومت کر رہا ہو، جس قسم کا چاہے ستم ڈھا رہا ہو، جس جانب چاہے لے جا رہا ہو اور جو بات چاہے منوا رہا ہو تو پھر کوئی اس فریب میں مبتلا ہو کہ سارے دنیا کے مسلمان اور مسلمان ممالک “مومن” ہیں تو نعوذ باللہ اس سے بڑا بہتان اللہ پر لگایا ہی نہیں جا سکتا۔ لہذا یہ بات بہت ضروری ہو گئ ہے کہ تمام دنیا کے مسلمان صرف دعاؤں سے کام چلانے کی بجائے عملا” اس جہاد کا حصہ بنیں، مومن بنیں، خوف اور ڈر کے حصاروں کو توڑ کر وہ کریں جو 313 نے کیا۔ ایسا جب بھی کریں گے، کامیابی پاؤں چومے گی اور اگر یقین نہ ہو تو پاکستان بننے کی تاریخ ہی کا مطالعہ کر لیں جو 75 سال سے زیادہ پرانی نہیں۔ وہی خستہ، بدحال، کمزور اور نحیف سے مسلمان تھے جو برطانیہ جیسی عظیم ترین سلطنت کے سامنے شیشہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے تھے، حتّٰی کہ ان کے قدم پورے برصغیر سے اکھاڑ کر رکھ دیے تھے۔
اقبال کیا خوب فرماتے ہیں:
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی