جرأت اور شجاعت کا پیکر: ٹیپو سلطان
30/01/2024
اپنی تاریخ اور قومی ہیروز کو یاد رکھنا کسی بھی قوم کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد نے دُنیاوی زندگی پر شہادت کو ترجیح دی کیونکہ شہید کی موت قوم کی حیات ہے ۔ کسی جنگ کی ہار قوم کی ہار نہیں ہوتی اور اسی چیز کا مظاہرہ ٹیپو سلطان نے کیا۔ جنگ میں ہار جیت سے زیادہ اہمیت جذبے کی ہوتی ہے جس کے ساتھ ایک سپاہی میدان میں لڑتا ہے۔ ٹیپو سلطان نے دشمن کی ذلت آمیز شرائط اور غلامی کی زندگی گزارنے کی بجائے آزادی کے ساتھ لڑتے ہوئے جان قربان کرنے کو ترجیح دی کیونکہ ان کا کہنا تھا:
“یک دمِ شیری بہ از صد سال میش”
یعنی؛گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔
ٹیپو سلطان در حقیقت مردِ مجاہد اور مردِ حُرتھا جسے اقبال کی زبان میں فیضِ فطرت نے دیدۂ شاہیں بخشا تھا۔ ٹیپو سلطان خودی، ضمیر اور پختہ عقائد کا مظہر تھا اور قرآن میں غوطہ زن مردِ حق اور عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا۔ اپنی آخری لڑائی میں اُترنے سے پہلے ٹیپو سلطان شہید نے وضو کیلئے پانی منگوایا اور کہا کہ میں نبی آخر الزماں کی بارگاہ میں با وضو حاضر ہونا چاہتا ہوں۔
اقبال نے ہمیں خبردار کیا تھا کہ ابلیس مسلمانوں کے بدن سے روح محمدی نکال کر انہیں شکست دینا چاہتا ہے۔ آج ہمارے تعلیمی ادارے کتاب خواں تو پیدا کر رہے ہیں مگر صاحبِ کتاب پیدا نہیں کر رہے۔ بد قسمتی سے آج ہمارے معاشرے میں جس تہذیب کو فروغ دیا جا رہا ہے وہ ہم سے ہماری تاریخ چھین رہی ہے تاکہ ہم اپنے نظریات سے دور ہو جائیں۔ اقبال کے مطابق بے یقینی قوموں کیلئے تباہی ہے اور آج ہم بے یقینی کا شکار ہو رہے ہیں اور ہمارے عقائد کمزور ہو گئے ہیں۔ بد قسمتی سے آج ہمارے طلباء کو درست تاریخ نہیں پڑھائی جا رہی اور انہیں نو آبادیاتی نظام کی تاریخ پڑھائی جاتی ہے جس میں ٹیپو سلطان کے کردار کو منفی طور پر دکھایا جاتا ہے۔ اس سے زیادہ مایوس کن یہ ہے کہ اس ساری صورتحال پر ہم لوگ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ ہمیں یہ خاموشی توڑ دینی چاہئے کیونکہ موجودہ دور میں کسی بھی قوم کو شکست دینے کیلئے اس پر ثقافتی جنگ مسلط کی جاتی ہے اور ہم اس جنگ کی زد میں ہیں اور یہ جنگ اصل جنگ سے کہیں زیادہ نقصان دہ اور مضر ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ نپولین کے خلاف جنگ برطانیہ نے میدان میں نہیں بلکہ عوامی سکولوں میں جیتی تھی۔ ہمیں اپنے قومی ورثہ کو بچانا ہے اور یہی ٹیپو سلطان کا پیغام ہے۔ اس ثقافتی جنگ سے جہاں قوم کا مورال گرا دیا جاتا ہے وہیں عزت نفس بھی تباہ کر دی جاتی ہے۔ ایسی قومیں غلامی قبول کر لیتی ہیں کیونکہ ان میں سے جرأت اور مزاحمت کی طاقت مفقود ہو جاتی ہے۔ ہمیں یہ پیغام ہر پاکستانی تک پہنچانا چاہئے کہ اگر ہم نہ صرف اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا بلکہ اوجِ ثریا پر اپنا مقام دیکھنا چاہتے ہیں تو ٹیپو سلطان کی طرح زندہ رہنا ہوگا۔ علامہ محمد اقبال، ٹیپو سلطان کی وصیت میں فرماتے ہیں:
تو رہ نوردِ شوق ہے، منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
کھویا نہ جا صنم کدۂ کائنات میں
محفل گداز! گرمیٔ محفل نہ کر قبول
صبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جبرائیل نے
جو عقل کا غلام ہو ، وہ دل نہ کر قبول
باطل دوئی پسند ہے، حق لا شریک ہے
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول