احساس بیداری ایک قیمتی سرمایہ

13/01/2024

دنیا بھر کے تاریخی آثار ہر قوم کی کہانی بیان کرتے ہیں اور ان سے عقلمند لوگ ہی عبرت، نصیحت اور سبق حاصل کرتے ہیں اور یہی لوگ حالات حاضرہ میں قوم کے راہنما کہلائے جاتے ہیں۔
بحیثیت امت مسلمہ کے جسد واحد ہونے کا احساس وہ قیمتی سرمایہ ہے جس سے دنیا کی قیادت کی گئی اور اب بھی کی جا سکتی ہے۔ یہ احساس زندہ رکھنا ہی امت مسلمہ کے سارے دکھوں کا علاج ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ قیمتی سرمایہ اور میراث کیسے گنوا دیا؟ حقیقت یہ ہے کہ جب نفس پرستی اور بے لگام خواہشات نے دنیا کی زندگی میں مگن کر دیا تو پھر موت سے خوف آنے لگا اور یہی وہ بیماری ہے جس کی وجہ سے مسلمان کلمہ حق سے نا آشنا ہو گئے اور ہر مسلمان ملت کے مقدر کا ستارہ نہ رہا۔

دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہمیشہ انتہائی نامساعد حالات میں سعید روحیں میدان عمل میں اتر آتی ہیں۔ قوموں کی حالت جب جانوروں سے بھی بدتر ہوتی ہے تو انبیائے کرام کا ظہور ہوتا ہے۔ جب انسانیت دم توڑتی محسوس ہوتی ہے تو محسن انسانیت کی تشریف آوری ہوتی ہے۔ جب لوگ اپنے مقصد زندگی سے ہٹ جاتے ہیں تو اللہ سبحان تعالی کسی مجدد کو سامنے لے آتے ہیں۔ لیکن کیا مجدد آسمان سے یکایک اتر آتے ہیں؟ مجدد کا تو اس وقت علم ہوتا ہے جب وہ اپنے حصے کا کام کر کے دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔
امت محمدیہ کس ہیرو یا مجدد کے انتظار میں ہے؟ جب کہ ہر مسلمان اپنی جگہ کسی ہیرو سے کم نہیں ہونا چاہیئے۔ امت کی مائیں کیوں یہ دعائیں مانگتی ہیں کہ کوئی ماں تو صلاح الدین ایوبی پیدا کرے، کیا وہ خود کسی بیٹے کی ماں نہیں ہے؟ کوئی پیدائشی طور پہ نجات دہندہ نہیں ہوتا ہے۔ یہ تربیت ہی ہے جو ایسے سپوت سامنے لاتی ہے۔ مسلمان والدین جب محمد بن قاسم اور طارق بن زیاد کی مثالیں دیتے ہیں تو وہ اپنے بیٹوں پہ محنت کیوں نہیں کرتے؟
پتا نہیں ہم سب کس دنیا میں بس رہے ہیں جہاں اچھے اعمال کے لئے سب ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے ہیں۔ اور سب مطمئن ہیں کہ اب امام مہدی کی ذمہ داری کا وقت آ گیا ہے۔۔۔ ہم بے بس ہیں۔ کیا یہ احساس بے بسی بذات خود جرم نہیں ہے؟ یقینا” یہ مایوسی جرم عظیم ہے۔
ہم شیطان اور اس کے کارندوں کے جال میں اپنی خوشی اور رضامندی سے عرصہ دراز سے پھنستے چلے جا رہے ہیں۔ یہودیوں کا معاشی مقاطعہ/ بائیکاٹ کرتے اب ہم حیران و پریشان ہیں کہ کوالٹی کی ساری چیزیں ہمارے دشمن کی بنائی ہوئی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ سر سے لے کر پاؤں تک ہمیں زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے۔۔۔ یقینا” ہم سب فلسطین میں قتل و غارت کے براہ راست ذمہ دار ہیں، مگر بے حسی کی چادر تان کر آنکھیں موندے امام مہدی کے منتظر ہیں۔ کچھ طفل تسلیاں یہ ہیں کہ حکومت کے کرنے کے کام عوام الناس کیسے کریں؟ اسی بات کا تو رونا ہے کہ عوام کو ان عوامل کا ادراک نہیں کہ وہ خود ہی اپنے سر پہ ظلم کی تلواریں لٹکاتے ہیں اور اپنے حقوق سے نا بلد رہتے ہیں۔ سچی بات ہے کہ ہر طرف آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ انفرادی طور پہ نفس پرستی کا دور دورہ ہے اور یہی نفس پرستی اپنے جیسے حکمرانوں کو منتخب کرواتی ہے۔ ہم اپنے ملک کے حوالے سے سوچیں کہ کیا واقعی سارے پاکستانی جانتے ہیں کہ حکمران دراصل ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہیں۔ بے شک آٹے میں نمک کے برابر لوگ مل جائیں گے جو اس صورتحال کو سمجھتے ہوں گے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ چٹکی بھر نمک آٹے میں اپنی حیثیت منوا کر رہتا ہے۔
معرکہ غزہ آج کے دور میں امت مسلمہ کے لئے مثال بنایا گیا ہے۔ یہ معرکہ حق و باطل ختم ہونے والا نہیں ہے۔ فلسطین کے مسلمان ہمسائے اس آگ سے بے نیاز بیٹھے ہیں، تو پھر آگ ان تک بھی پہنچے گی اور پھر یہ سلسلہ رکنے والا نہیں۔ جس ملک میں مسلمان غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہوں گے وہاں تو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملنے والا۔
والدین اور اساتذہ پہلے خود مایوسی، بے دلی، سستی و کاہلی اور تن آسانی سے جان چھڑائیں۔ اللہ تعالی کے حضور سچے دل سے اپنی کوتاہیوں کو تسلیم کریں اور رجوع اللہ کے پانی سے دل کو صاف کریں۔ توبہ کریں، پاک دل میں نئے سرے سے خلوص نیت کا بیج بوئیں اور منظم و مربوط لائحہ عمل سے زندگی کی ابتدا کریں۔ جب تک والدین اور اساتذہ اپنے قول و عمل سے مثال نہیں بنتے نسل نو کی مٹی زرخیز نہیں ہو سکتی۔ والدین اور اساتذہ نے ہی قوم کی باگ دوڑ سنبھالنے والے ہاتھ تیار کرنے ہیں۔ پون صدی سے پاکستانی قوم کو امت مسلمہ کی مضبوط کڑی سے جدا کرنے کی اندرونی و بیرونی سازشیں مکمل طور پہ کامیاب نہیں ہو سکیں۔۔۔الحمداللہ کہ ابھی دلوں میں ایمان و اخوت کی چنگاری موجود ہے اور آپ اور ہم ٹوٹے ہوئے تارے کو مہ کامل بنانے کے ذمہ دار بنائے گئے ہیں۔ اللہ تعالی نے دنیا کی قیادت کا کام آپ سے ہی لینا ہے۔ جب آپ مطلوبہ فکر و عمل کے معیار پہ پہنچ جاتے ہیں تو فرشتے آپ کی کمزور سی نفری میں اضافہ کرنے کو اتارے جاتے ہیں۔ فرشتوں کا انتظار اسی وقت زیب دیتا ہے، جب سارے زمینی وسائل استعمال کر لئے گئے ہوں۔
آپ اور ہم اگر اپنے نیک ارادوں میں مضبوط قدموں پہ کھڑے ہیں تو ہم فلسطین کے جہاد میں شامل ہیں۔ مالی اور اخلاقی تعاون کے ساتھ ساتھ ہم انتخابات کے ذریعے مخلص، ایماندار قیادت کو آگے لانے کے لئے مضبوط قدموں سے میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں، تو یہ دراصل مستقبل میں امت مسلمہ کو جسد واحد ہونے کا احساس زندہ کرنے کا عملی قدم ہے۔ ایک معمولی نظر آنے والا ننھا سا بیج کبھی تناور ، ثمر دار، سایہ دار شجر بن ہی جاتا ہے۔ آئیے اپنے آپ کو اللہ کے رنگ میں رنگ لیں۔ اور ایک نئی جہت سے اپنی صلاحیتوں کو اسی رب کے نام وقف کرنے کا جذبہ پیدا کر لیں۔ دل کے ستارے کو ایمان کی روشنی سے جگمگائیں اور کہکشاں بنا جائیں۔
واللہ المستعان