شکر کی اہمیت
27/12/2023
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں شکر کی اہمیت کو بہت زیادہ اجاگر کیا ہے شکر کے متعلق قرآن پاک میں بہت سی آیات ملتی ہیں اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور ناشکری کرنے والوں کو اپنے عذاب سے ڈراتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں کہ
“اور اگر تم نے ناشکری کی تو یقین جانو میرا عذاب بڑا سخت ہے”۔
اللہ رب العزت نے انسان کو اتنی نعمتوں سے نوازا ہے کہ انسان ان نعمتوں کو شمار نہیں کر سکتا انسان سوچتا ہے کہ مجھے فلاں چیز کی ضرورت ہے، فلاں کے پاس یہ چیز ہے میرے پاس کیوں نہیں ہے، فلاں کو اللہ تعالی نے یہ دے دیا مجھے کیوں نہیں دیا، لیکن اگر یہی انسان چند لمحوں کے لیے اللہ کی عطا کردہ ان نعمتوں کے بارے میں سوچے جو اسے عطا کی گئیں ہیں، ان میں سے بہت سی ایسی نعمتیں ہیں جو اللہ رب العزت نے اسے بن مانگے عطا کی ہیں جن کے لیے بہت سے لوگ اللہ کے سامنے گڑگڑاتے ہیں تو انسان حقیقی معنوں میں اللہ تعالی کا شکر ادا کر سکتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ہم ایک وقت میں ایک ساتھ اللہ تعالٰی کی عطا کردہ بہت سی نعمتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں. اللہ تعالٰی نے ہمیں مکمل جسمانی اعضاء کے ساتھ ساتھ عقل و شعور اور ہر محرومی سے پاک ایک مکمل انسان بنایا، اگر ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو ہمیں بہت سے ایسے لوگ نظر آئیں گے جو بہت سی محرومیوں کا شکار ہیں اس لیے ہمیں ان سب نعمتوں پر جو اللہ رب العزت نے ہمیں عطا کی ہیں، ان کا تہہ دل سے شکر ادا کرنا چاہیے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
“وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل پیدا کیا مگر تم بہت کم شکر ادا کرتے ہو”(سورت النحل=78)
شیخ سعدی رحمت اللہ علیہ کی مشہور حکایت ہے کہ کسی شہر میں پہنچے تو انکے جوتے ٹوٹ گئے اور نئے خریدنے کی استطاعت نہ تھی تو بیحد ملول ہوئے کہ اتنے فضل وکمال کے باوجود اللہ تعالی نے اس حال میں رکھا ہے کہ پاؤں میں جوتے نہیں وہ جیسے ہی شہر کی مسجد میں داخل ہوئے تو انکی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جسکے پاؤں نہیں تھے، یہ دیکھتے ہی اللہ رب العزت کے آگے سجدے میں گر گئے اور اللہ تعالی کا لاکھ شکر ادا کیا کہ جوتے نہیں تو کیا ہوا پاؤں تو ہیں جبکہ اس بیچارے کے پاؤں نہیں ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں مسلمان گھرانے میں پیدا کیا صرف یہ ہی نہیں بلکہ خاتم النبیین، رحمت اللعالمین، نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا امتی بنایا جس کا شکر ہم تمام عمر سجدے میں بھی پڑے رہیں پھر بھی ادا نہیں کر سکتے۔
ہمیں اللہ تعالی کی نعمتوں کا تذکرہ کرتے رہنا چاہیے اس طرح بھی ہم اللہ کا شکر ادا کر سکتے ہیں۔ ہماری ستم ظریفی یہ ہے کہ مصیبتوں کا تذکرہ تو کرتے ہیں لیکن نعمتوں کا ذکر نہیں کرتے۔
ہم اللہ رب العالمین کا شکر کچھ اس طرح بھی ادا کر سکتے ہیں کہ ہم دین کے معاملے میں اپنے سے اوپر والے کو دیکھیں اور دنیاوی لحاظ سے اپنے سے نیچے والے کو۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
“تم میں سے جو کوئی کسی ایسے آدمی کو دیکھے جو اس سے زیادہ مالدار ہو اور اس سے زیادہ اچھی شکل و صورت کا ہو، اور اس کو دیکھ کر اپنی حالت پر ناشکری کرے تو اسے چاہیے کہ وہ شخص اس پر نظر ڈالے جو اس سے کم تر ہو”۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں پینے کے لیے صاف پانی دیا، کھانے کے لیے طرح طرح کا اناج، حلال اور پاکیزہ چیزیں دیں تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ان نعمتوں کو کھائیں اور شکر ادا کریں۔ اگر اللہ تعالٰی ہم پر اپنی یہ تمام نعمتیں بند کر دیں، تو کون ہے جو ہمیں رزق دے اس لیے ہمیں ہر حال میں
اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے.
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ
“لہذا اللہ نے جو حلال پاکیزہ چیزیں تمہیں رزق کے طور پر دی ہیں، انہیں کھاؤ،اور اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرو، اگر تم واقعی اسکی عبادت کرتے ہو”۔
اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری اس کے بندوں پر واجب ہے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو بہت سی نعمتیں دیں تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان نعمتوں کا اعتراف ان الفاظ میں کیا
“یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گزاری کرتا ہوں کہ ناشکری”۔ سورۃ النحل آیت نمبر 40۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے، کہ
“شکر گزار بننے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان نعمتوں سے دوسروں کو فائدہ پہنچائے”۔
دنیاوی سکون اور آخرت کی کامیابیاں انہی لوگوں کے لیے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں.