آج میں جینا سیکھئے
20/09/2023
ایک احمق جزیرے پر سیر کرنے چلا گیا۔ رات کے پچھلے پہر اس کا گھر واپس جانے کو جی چاہا۔ اس نے سامان کشتی میں رکھا اور چپو چلانے شروع کر دیے۔ چپو چلاتے چلاتے صبح ہوگئی اور وہ تھکاوٹ سے چور ہوگیا۔ جب اس نے اپنے سامنے دیکھا تو بہت حیران ہوا کہ منزل کا دُور دُور تک کوئی نشان موجود نہیں ۔ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے تو اس کے اوسان خطا ہوگئے، کیونکہ وہ کشتی سے بندھی رسی کو کھولے بغیر ساری رات چپو چلاتا رہا تھا اور کشتی اپنی جگہ سے دو انچ کا فاصلہ بھی طے نہیں کر سکی تھی۔ اس مثال کی مانند بے شمار لوگ ماضی کے واقعات، تلخیوں اور ناانصافیوں کا سوچتے رہتے ہیں اور ان کی زندگی کی کشتی اپنی ہی جگہ رہتی ہے۔ وہ ماضی سے بندھی رسی کو نہیں کاٹتے، اس لیے ماضی بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ آپ خود بتایئے کہ اگر کسی شخص کو آگے بڑھنا ہو اور وہ منزل کی طرف کمر کرکے الٹے قدم چلنا شروع ہو جائے تو کیا وہ منزل تک پہنچ جائے گا؟ کبھی نہیں۔
ماضی آپ کو کچھ سبق سکھانے آیا تھا تا کہ آپ ان تجربات کے نتائج کو یاد رکھتے ہوئے آگے بڑھ سکیں۔ ہم کسی بھی طاقت کے ذریعے ماضی کو نہیں بدل سکتے۔ گئے دن پھر کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ ہاں، ایک چیز ممکن ہے کہ ہم ماضی کی غیر ضروری یادوں اور تلخ تجربات کو بھلا دیں، ان کے مطابق نہ سوچیں اور نہ ان کے متعلق بات کریں۔ زندگی کے ابتدائی ایام کی غلطیاں بہت اہم ہوتی ہیں۔ یہ ہمیں ذہنی اور جذباتی طور پر پختہ کرتی ہیں۔
اسی طرح کئی لوگ مستقبل کے خوابوں میں گم رہتے ہیں۔ مستقبل کی ابھی کوئی حقیقت نہیں، کل کس نے دیکھا ہے، کل کی فکر نہ کیجیے۔ کل جب آئے گا، تب دیکھا جائے گا۔ آپ کی اصل دولت’’آج‘‘ ہے۔ دوسرے الفاظ میں موجودہ وقت(حال)، کیوں کہ آپ حال کو بدل کر اپنے مستقبل کو شان دار بنا سکتے ہیں۔ وہ وقت دُور نہیں کہ جب یہ وقت ختم ہوجائے گا۔ آنے والے وقت کو متاثر کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ حال میں جینا سیکھیں۔ واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں:
’’ جس نے جوانی میں اپنے مستقبل کا خیال رکھا، اسے بڑھاپے میں حسرتوں کا شمار کم ہی کرنا پڑتا ہے۔‘‘
ہر لمحہ، ہر دن اور ہر سال آپ کو اللہ حافظ کہہ رہا ہے۔ اہم بات یہ نہیں ہوتی کہ آپ کتنے پل اور کتنے لمحات زندہ رہے ہیں بلکہ اہم یہ ہوتا ہے کہ آپ نے کتنے لمحات اور پلوں میں زندگی بھر دی ہے اور ان سے فائدہ اٹھایا ہے۔ سب سے قیمتی لمحات موجودہ لمحات ہیں۔ حال میں رہتے ہوئے محنت اور کوشش کیجیے، آپ کا مستقبل تاب ناک ہو جائے گا۔ ماضی یاد ہے اور مستقبل خواب، صرف حال ہی حقیقت ہے۔ حال آپ کی توجہ کا سب سے زیادہ مستحق ہے۔ عقل مند انسان نہ تو ماضی کا ماتم کرتا ہے، نہ مستقبل کی فکر بلکہ وہ حال کو نکھارتا ہے، اس لیے وہ بے خوف ہو کر جیتا ہے بے فکری بھی ایک نعمت سے کم نہیں۔
لوگ کام کرتے ہوئے دماغی طور پر غیر حاضر ہوتے ہیں۔ وہ ماضی کی یادوں میں گم ہو جاتے ہیں، اس لیے ان کے کام کو پوری توجہ نہیں ملتی اور پھر وہ ناکام ہو جاتے ہیں۔ کھانا کھاتے ہوئے، گاڑی چلاتے ہوئے، سیروتفریح کے مقامات پر اور فیملی کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے لوگ ذہنی طور پر ماضی کی پریشانیوں یا مستقبل کے اندیشوں میں غرق ہوتے ہیں، اس لیے وہ زندگی سے صحیح طور پر لطف اندوز نہیں ہوتے۔
اداس آدمی سے بات چیت کرکے آپ خود بھی اداس ہو جاتے ہیں۔ اداسی اور نا امیدی ذہن کی توانائی کو بکھیر دیتی ہے۔ پُرسکون حالت میں ذہن زیادہ توانا ہوتا ہے۔ انسان پُرسکون تب ہی ہوتا ہے کہ جب وہ حال میں رہنا سیکھتا ہے۔ دنیا کے تمام روحانی مکاتب حال میں رہنے کی تبلیغ کرتے ہیں، کیونکہ اس طرح آپ اپنی صلاحیتوں سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
مستقبل کی پریشانیوں کو دور بھگا دیجیے۔ آج میں رہنا سیکھیے اور قناعت کرتے ہوئے زندگی گزاریے۔ یاد رکھیے، ہمارے پاس جو کچھ ہے اس پر قانع ہونا درست ہے لیکن ہم جو کچھ ہیں، اس پر قناعت کرنا ہرگز درست نہیں۔ ماضی اور مستقبل سے بے نیاز ہو کر کام کیجیے۔ آج کو بہتر کیجیے، کل خود بہ خود بہترین ملے گا۔ وہ مالک جس نے آپ کو کل رزق دیا تھا اور آج بھی آپ کو رزق دے رہا ہے، وہ یقینا آئندہ بھی آپ کو رزق فراہم کرتا رہے گا۔ اس لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ صبر کا دامن پکڑ کر محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ سکھ حاصل کرنے کیلئے مطمئن رہیے۔ آج میں جینا سیکھئے کیونکہ اطمینان سب سے بڑی دولت ہے۔ کل جو پھول کھلیں گے، ان کے بیج آج آپ کے ہاتھ میں ہیں۔ اس لیے آج ہی یہ بیج بوئیے۔ آپ کو ’’کل‘‘ شان دار ملے گا۔ گوتم بدھ کے بقول:
’’ہمارے مستقبل کا دارومدار ہمارے آج کے خیالات اور اعمال پر ہے۔
جب تک آپ روشن اور قابل رشک مستقبل کیلئے سچے دل سے محنت نہیں کرتے، آپ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ معجزات کا انتظار نہ کیجیے۔ زندگی عمل سے بنتی ہے، کرشمات سے نہیں۔ اپنے مستقبل کو جنت نظیر بنایئے اور آج سے محنت شروع کیجیے۔